اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار کو خط لکھ کر کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا۔تفصیلا ت کے مطابق
سپریم کورٹ میں منحرف اراکین پارلیمنٹ کا ووٹ شمار نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت شروع کی تو جسٹس منیب اختر سماعت میں شریک نہ ہوئے جس کے باعث سماعت ملتوی ہو گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار کو خط لکھا ہے کہ میں اس کیس میں شامل نہیں ہوسکتا لیکن میرے خط کو بنچ سے الگ ہونا نہ سمجھا جائے اور نظر ثانی کیس میں ریکارڈ کا حصہ بھی بنایا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کھلی عدالت میں جسٹس منیب اختر کے خط کا ایک حصہ پڑھ کر بھی سنایا جس میں لکھا تھا کہ پریکٹس پروسیجر کمیٹی نے بینچ تشکیل دیا ہے، اس کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔
علاوہ ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کے کیس کی سماعت کرنے سے معذرت پر ریمارکس دئیے ہیں کہ سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کرسکتی، ہمیں یہاں صرف مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ وہ بینچ کا حصہ بنیں، ایک مرتبہ بینچ بن جائے تو تمام کارروائی عوام کے سامنے ہونا چاہیے، جسٹس منیب اختر اگر نہ آئے تو دوسرے دستیاب جج ان کی جگہ شامل کیے جائیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ پارلیمنٹ کے قانون کی یہ نیت نہیں ہے کہ آئینی حقوق کے فیصلے نہ ہوں اورسپریم کورٹ اسٹینڈسٹل ہوجائے،اگر کوئی رکن شریک نہیں ہونا چاہتا تو یہ ان کی مرضی ہے، سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کرسکتی، ہمیں یہاں صرف مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔