اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹر فیصل واڈا اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس براہ راست دکھانے کے معاملے پر میڈیا چینلز کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے چینلز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی۔سپریم کورٹ میں فیصل واڈا اور مصطفی کمال کی پریس کانفرنس براہ راست دکھانے سے متعلق میڈیا چینلز کے خلاف توہین عدالت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سب سے بڑے نیٹ ورکس کون سے ہیں جس پر پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالتی ہدایت پر دوبڑے چینلز کے جواب پڑھ کر سنائے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے معافی کن وجوہات پر مانگی ہے جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ 28 جون کا عدالتی حکمنامہ پڑھا تو احساس ہوا غلطی ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ ہمارے اس آرڈر سے اتنے متاثر ہوتے تو اس کی تشہیر نہ کرتے، آپ ٹی وی چینلز سب کنٹرول کرتے ہیں کون کیا سنے کیا سوچے، آپ نے ہمارے اس حکمنامے کو دبا دیا، یہ اخبارات میں بھی نہیں آیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے سنسنی پھیلانی ہوتی ہے، یوٹیوب پر بھی ڈالرز ہی دیکھے جاتے ہیں، میں نے اپنے کیریئر میں یہ پہلا توہین عدالت کا کیس اٹھایا، ہر طرف چور چور ہو رہی ہوتی ہے کس طرح کا ملک چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گالیاں نشر نہیں ہوں گی تو ریٹنگ کیسے آئے گی، ان کی اپنی فیملیز کو گالیاں پڑیں تو پھر دیکھیں، ہم کسی کو جیل نہیں بھیجنا چاہتے مگر احساس ذمہ داری تو ہو، کیا آپ کو سخت ٹیچر جیسا پیمرا ہی چاہیے جو بتائے کیا ٹھیک کیا غلط ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ملک کو تباہ کیا جا رہا ہے باہر سے کسی کی ضرورت نہیں، ٹی وی چینلز کو کیا سنسنی خیز رپورٹرز ہی چاہیں، آپ کو وہ رپورٹرز نہیں چاہیں جو سنجیدہ خبر لائیں، کچھ ایسے کورٹ رپورٹرز بھی بھیج دیئے جاتے ہیں جن کو کچھ پتہ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل واوڈا، مصطفی کمال کی معافی کی تشہیر نہیں کی گئی۔جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ کیا کسی چینل نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کی گفتگو کی مذمت کی، ٹاک شوز میں بات ہوتی رہی نیوز میں تو مذمت نہیں ہوتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں اور کوئی خبر نہیں کہ جنگل نہ کاٹو، پانی ضائع نہ کرو، پارلیمنٹ کو پی ٹی وی کے علاوہ کوئی کور نہیں کرتا، ایسا نہیں ہے پارلیمنٹ کو سب کوور کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فیصل واوڈا اورمصطفی کمال عام آدمی نہیں تھے، دونوں کی پریس کانفرنس تو آپ نے کوور ہی کرنا تھی، دونوں جو بولیں گے اسے آپ کنٹرول نہیں کر سکتے مگر دوبارہ نشر تو نہ کریں۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کی باتیں پانچ بار چلائی گئیں۔ٹی وی چینلز نے معافی نامہ نشر کرنے کی یقین دہانی کروا دی، ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جو معافی مانگی اس کو بھی ہم نشر کرسکتے ہیں، ٹی وی چینلز خود احتسابی کا عمل بھی بہتر بنائیں گے، ڈیلے مکینزم بھی یقینی بنایا جائے گا۔