اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں بہتری لانی ہے تو آّئینی عدالتوں کا قیام ضروری ہے، وکلانے ہر آمریت کے دور میں اس کے خلاف صف اول کا کردار ادا کیا، وکلا پیپلزپارٹی کااثاثہ ہیں، عدالتی نظام کو درست کرنا ہے تو آئینی عدالت بنانی پڑے گی جہاں آئینی معاملات سے متعلق کیس سنے جائیں گے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے خطاب کا آغاز پیپلز لائرز فورم (پی ایل ایف) کا زرداری ہاؤس میں استقبال کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے لائرز ونگ نے اس ملک کو 1973 کا آئین دیا اور ہر ظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے چاہے وہ ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے آمروں کی شکل میں ہوں یا چیف جسٹس افتخار چودھری کی صورت میں چیئرمین بلاول نے روشنی ڈالی کہ پارٹی کے وکلاء کی جدوجہد 1973 کے آئین کی بحالی اور جابرانہ قوانین کے خاتمے کا باعث بنی۔
انہوں نے یاد کیا کہ کیسے شہید محترمہ بینظیر بھٹو دبئی میں رہتے ہوئے بھی پی ایل ایف کی طرف سے کالیں وصول کرتی تھیں۔ وہ ریمارکس دیتی تھیں کہ اگر ججز سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو وہ ایک سیاسی جماعت بنائیں اور اس حیثیت میں ان سے رابطہ کریں،وہ سمجھتی تھیں کہ عدالتوں پر سیاست کرنا جمہوریت، آئین اور عوام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود ایک آئینی عدالت کے قیام کا تصور دیا تھا جو عوام اور ان کے خاندان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو دور کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کا نقطہ نظر سیاسی اور آئینی مقدمات کو نمٹانے کے لیے آئینی عدالتوں کے قیام پر مرکوز تھا۔ ججوں کی تقرری، جو آئینی طور پر وزیر اعظم کے پاس تھی بعد میں عدالتی مداخلت کے ذریعے چیف جسٹس کو منتقل کر دی گئی۔
18ویں ترمیم میں اس کو حل کرنے کی کوششیں کی گئیں تاہم ان کوششوں کو نام نہاد "ہینڈ شیک” چیف جسٹس نے پٹڑی سے اتار دیا، جس نے ایک غیر معمولی عدالتی نظام کی مثال قائم کی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی طرف سے شروع کی گئی ‘سیاسی سرگرمی’ کے نظریے کو ثاقب نثار اور گلزار احمد جیسی شخصیات نے آگے بڑھایا۔
آئین کے آرٹیکلز، جیسے 58-2B، کو ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کے خاندان نے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لیے انصاف کے حصول کے لیے پچاس سال انتظار کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ سمیت کیس کے پورے بینچ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے عام لوگوں کی حالت زار پر سوال اٹھایا کہ اگر ایک سابق وزیر اعظم، ان کی بیٹی، سابق وزیر اعظم اور ان کے شوہر، سابق صدر کو انصاف کے لیے پانچ دہائیوں تک انتظار کرنا پڑا، ہمیں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے وعدے پورے کرنے چاہئیں، جو بھی ہو، ہمیں میثاق جمہوریت کے مطابق آئینی عدالت قائم کرنی چاہیے۔