لاہور: سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ پارلیمان کا حق کسی کو سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی،آئین کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق پارلیمان قانون سازی کرنے کااختیار رکھتی ہے اور تمام ادارے اس کے تابع ہیں ،پارلیمان کو مضبوط بنائے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے، آئین اور پارلیمان کو مضبوط بنانے کیلئے اپنا کردار دکھانا ہوگا، مذاکرات ہر مسئلے کا حل ہیں، فلور کراسنگ کا قانون موجود ہے، اپوزیشن آئین کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپیکر ملک احمد خان نے کہا کہ آئینی ترامیم ہمیشہ بہت بحث کے بعد ہوتی ہیں، پارلیمان کو عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ یہ قانون پاس کرے، آئین کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق پارلیمان قانون سازی کرنے کااختیار رکھتی ہے اور تمام ادارے اس کے تابع ہیں ،قانون میں موجود ہے کہ پارلیمان، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے کیسے کام کرنا ہے۔
قانون کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ جب آئینی ترامیم کی بحث کھلی بھی نہیں تھی میں نے نکتہ اٹھایا تھا، اب پارلیمنٹ کے فیصلے کو فوقیت ہو گی یا پھر سپریم کورٹ کی ججمنٹ کو ہو گی، سب سے بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سیاستدان کے پاس ہوتی ہے، آمادہ نہیں ہوں کہ سیاستدان غلط فیصلہ کرتے ہیں۔
ملک احمد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرتا ہے، پہلے ایک حلف نامہ دیا ہوا ہے پھر نیا حلف نامہ آئے گا، یہ مناسب نہیں، پارلیمنٹ نے قانون پاس کرکے اس چیز کو واضح کر دیا۔انہوں نے کہا کہ پارٹی تبدیل کرنا اور فلور کراسنگ کرنا جیسے ایشوز آرہے تھے، ایشوز کو دیکھ کر قومی اسمبلی نے نیا ایکٹ پاس کیا، گزشتہ تین دہائیوں میں جوڈیشل ایکٹوازم نے پارلیمنٹ کے بہت سے حقوق کو سلب کیا جو آئین کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔
فارن فنڈنگ کا کیس ساڑھے 3 سال تک روکے رکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ 7 سال عدالتی طریقہ سے متعلق آئینی ترمیم کے مدعی بن کر مختلف اراکین پارلیمنٹ کے پاس گئے ، 18ویں آئینی ترمیم کے وقت عدالتی فیصلوں کے ذریعے معزز اراکین پارلیمنٹ کو حراساں کیا گیا۔ملک احمد خان نے کہا کہ ہمارے آئین بنانے کے حق کو سلب کیا گیا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کو پاس ہوئے کئی برس ہو گئے ہیں، حکومت اور اپوزیشن سے درخواست ہے سیاسی خول سے باہر نکلیں، یہ درخواست مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت سے بھی ہے، سیاسی جماعتیں قومی مفادات کو ذاتی مفادات سے بالاتر رکھیں۔