جمعہ, نومبر 22, 2024

پاک فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی )لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات ثابت ہونے پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے،فیض حمید نے سیاسی عناصر کی ایما پر ذاتی مقاصد کیلئے آئینی حدود سے تجاوز کیا،کیس میں جو بھی ملوث ہو، خواہ اس کا کوئی بھی عہدہ یا حیثیت ہو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے، فوج کا خود احتسابی کا نظام ٹھوس شواہد، ثبوتوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے،فوج میں ذاتی مفادات کے لیے سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھانے والے کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے،پاکستان آرمی قومی فوج ہے، اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ،نہ یہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے، فوج کو بحیثیت ریاستی ادارہ کسی بھی سیاسی مفاد کی تکمیل کے طور پر استعمال سے محفوظ رکھا جائے گا۔
افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے ،پاکستان نے اس کا ہمیشہ بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے ، حکومت پاکستان افغان عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے،چاہتے ہیں وہ پاکستان پر خوارجین پر قطعا فوقیت نہ دے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد قومی سلامتی کے معاملات، خطے کی داخلی سلامتی سے جڑے معاملات اور دہشت گردی کے خلاف کیے گئے اقدامات کا احاطہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے فتنہ الخوارج اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا جائزہ پیش کرنا ہے، دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف اس سال32 ہزار 173 آپریشنز کیے۔انہوں نے کہا کہ ان آپریشنز کے دوران 90 خوارج کو واصل جہنم کیا گیا، دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 130 سے زائد آپریشن کیے جا رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان آپریشنز کے دوران 193 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، قوم شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، آخری خارجی اور دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ 25 اور 26 اگست کی رات دہشت گردوں نے بلوچستان میں کارروائیاں کیں، یہ کارروائیاں اندورن، بیرون ملک دہشت گردوں کی ایما پر کی گئیں، ان کا مقصد معصوم اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا ہے، فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 21 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا، اس دوران 14 جوان شہید ہوئے۔
ہمیں معلوم ہے کہ بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی اور ریاستی جبر کا تاثر بھی پایا جاتا ہے، جس کو بیرونی ایما پر مخصوص عناصر منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ اس کو اس لیے اسپلائٹ کرتے ہیں تاکہ بلوچستان میں ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کا جاری عمل خوف ہ ہراس کے ذریعے متاثر کیا جا سکے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب ترقی نہیں ہوگی تو اس سے احساس محرومی اور ریاستی در اندازی کا بیانیہ مزید بڑھے گا۔انہوںنے کہاکہ 25، 26 اگست کی رات کو ہونے والے واقعات اسی بیرونی فنڈنگ پر چلنے والے کھیل کا حصہ تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ کرنے والوں، کرانے والوں کا انسانیت اور بلوچ اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوںنے کہا کہ پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے، اس کا خود احتسابی کا نظام انتہائی جامع اور مضبوط عمل جو ٹائم ٹیسٹڈ ہے، یہ الزامات کے بجائے، ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے، جب بھی فوج میں قائم قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ خود کار نظام حرکت میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 12 اگست کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے حوالے سے بتایا گیا تھا، ریٹائرڈ افسر کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں باضابطہ طورپر درخواست موصول ہوئی، اپریل 2024 میں پاک فوج کی طرف سے اعلیٰ سطح کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا، تاکہ مکمل تحقیقات کی جاسکے۔
انہوںنے کہاکہ ٹھوس شواہد پر مبنی تفصیلی انکوائی مکمل ہونے کے بعد 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ متعلقہ ریٹائرڈ افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانب سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے، ان بنیادوں پر فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان آرمی قومی فوج ہے، اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، نہ یہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے، نہ طرفدار، فوج کا ہر حکومت کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلق ہوتا ہے جو آئین اور قانون میں مناسب طور پر بیان کیا گیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر فوج میں کوئی شخص اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کام کرتا ہے یا اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھاتا ہے تو پاک فوج کا خود احتسابی کا نظام حرکت میں آتا ہے۔
احمد شریف چوہدری نے اس سوال پر کہ فیض حمید اور ان کے کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھنے کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کو فوجی تحویل میں لیا جا سکتا ہے، یا ان کے خلاف فوجی ایکٹ تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ایک زیر سماعت معاملہ ہے اور آپ کا سوال مفروضوں پر مبنی ہے لیکن میں آپ کو یہ ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص، اگر کسی فرد یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہو، ان کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے اور اس کے ثبوت اور شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ خود بنا لے گا۔
فیض حمید کے معاملے سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس فیض حمید کیس میں جو بھی ملوث ہو، خواہ اس کا کوئی بھی عہدہ یا حیثیت ہو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
اس سوال پر کہ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی میں عہدے پر لایا جا رہا تھا تو اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ جڑ جائیں گے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیا کہ آئی ایس آئی کا ڈائریکٹ باس وزیراعظم ہوتا ہے آپ نے اس وقت کے وزیر اعظم کا ذکر نہیں کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہا کہ اعداد و شمار شواہد بتاتے ہیں کہ اگست 2021 کے بعد سے فتنہ الخوارج اور دہشتگرد جو ہیں ان کی سہولت کاری بڑھ چکی ہے جب سے افغانستان میں تبدیلی آئی ہے، یہ سہولت کاری چاہے ٹریننگ کیمپس کی شکل میں ہو یا نقل و حمل کی مدد فراہمی کی صورت میں یا یہ افغان شہریوں کی خود فتنہ الخوارج میں شامل ہونے کی شکل میں ہو چاہے خود کش بمباروں، یا چھوڑا ہوئے امریکی اسلحے کی جدید فراہمی کی شکل میں ہو یہ بڑھ چکی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر اس سلسلے میں حکومت پاکستان افغان عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور پاکستان نے اس نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان پر خوارج کو قطعا فوقیت نہ دے،اور وہ خوارجی جن کا نہ کوئی دین اسلام سے تعلق ہے اور نہ ان کا کوئی انسانیت سے تعلق سے ہے اور نہ ان کا کوئی قبائلی اقدار سے تعلق ہے۔
حکومت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سی چیزوں پر اچھے تعلقات ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دو برادر اسلامی ممالک میں غلط فہمیاں پیدا کرکے رخنہ ڈال دیں ان کو ہم یہی کہیں گے وہ خیالی دنیا میں رہتے ہیں،فوج ہوتی ہے وہ دہشت گرد سے لڑتی ہے اور قوم دہشت گردی سے لڑتی ہے، اس لیے حکومت نے عزم استحکام کے نام سے ریوائز نیشنل ایکشن پلان کی نئی شکل تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر پیش کی اس کا مقصد دہشتگردی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اقدامات ہیں وہ اٹھائیں جائیں۔
احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستانی فوج کے جوان اور افسر خود پاکستان کے نچلے اور متوسط طبقے سے آتے ہیں عمومی طور پر یہ اشرافیہ یا ایلیٹ طبقے سے نہیں آتے، ہمیں معیشیت اور مہنگائی کا ادارک ہے، ہم بھی اس پر اسی طرح نبرد آزما ہوتے ہیں جیسے پاکستان کی عوام ہوتی ہے، لیکن میں یہاں پر انفرادی طور پر بات نہیں کروں گا بلکہ ادارہ جاتی طور پر بات کروں گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 2022 اور 23 میں ہمارا دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 1.9 فیصد تھا اور سال 24-2023 میں ہمارا دفاعی بجٹ کم ہو کر 1.7 فیصد ہوگیا ہے، تو ہم نے اپنے دفاعی اخراجات کو کم کیا ہے، گزشتہ مالی سال کے اندر فوج نے 100 ارب روپیہ ہارڈ کیش کی صورت میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی مد میں جمع کرائے ہیں اور جو ہمارے رفاعی اور ذیلی ادارے ہیں 260 ارب انہوں نے جمع کرائے ہیں۔
احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ قومی سطح پر جو ایس آئی ایف سی ہے اس کے اندر فوج حکومت کی اعانت و مدد کرنے کا کردار ادا کررہی ہے وہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے اور پاکستان کی عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہے۔ ہمارے تمام اقدامات کا ایک کلیدی عمل پاکستانی معیشیت کو اور عوام کی فلاح بہبود کیلئے ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بلوچستان پر میں کھل کر بات کرنا چاہوں گا، بلوچستان پاکستان کی جان ہے اور ہماری شان اور آن ہے، شاید ہی کوئی ایسا افسر ہو جس نے بلوچستان میں ٹریننگ نہ لی ہو، ہمارے لیے یہ گھر کا رتبہ رکھتا ہے، یہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ایک زیادہ رقبے میں کم آبادی کے مسائل نے وہاں جنم لیا ہے، بلوچستان میں صرف بلوچ نہیں بلکہ پختون، براہوی اور دیگر قومیں آباد ہیں، بلوچ کی کثیر تعداد پاکستان کے دیگر علاقوں میں آباد ہیں۔
جنرل احمد شریف نے بتایا کہ کتنے شہدا ہیں اس بلوچستان کے جنہوں نے اس ملک کے لیے جان دی، یہ ہے بلوچستان، اب اس بلوچستان کے اندر بیانیے بنائے جاتے ہیں، مٹھی بھر دہشت گردوں کو جو سرپرست کرتے ہیں وہ بیانیے بناتے ہیں ریاستی جبر کا، وہ بیانیہ بناتے ہیں کہ حقیقی نمائندگی نہیں ہماری، ہمارا کام ان بیانیوں کی حقیقت کو دیکھنا ہے، جب ہم ان بیانیے کو زمینی حقائق کے ساتھ رکھتے ہیں تو ان میں جھول نظر آتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ اس سال بلوچستان کا بجٹ 750 ارب ہے اس میں 520 ارب وفاق نے دیے، 70 فیصد وفاق نے بجٹ دیا، یہ ہے حقیقت، یہ وسائل کے استحصال کا بیانیہ بناتے ہیں مگر بلوچستان حکومت 254 ارب روپے صرف منافع لیتی ہے رائیلٹی سے، اور جو بلوچستان کے معدنیات کے پروجیکٹس ہیں ان میں 80 فیصد لوگ بلوچستان کے ہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ احساس محرومی کا بیانیہ بناتے ہیں ، 1997 میں بلوچستان میں375 کلو میٹر سڑک تھی ا?ج 25 ہزار کلومیٹر سڑک ہے، 8 قومی شاہراہیں ہیں، تعلیم کی بات کریں تو اس وقت 73 ہزار بچے اسکالرشپس پر پاکستان اور بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہاں ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کی تعداد بھی زیادہ ہے، کیڈٹ کالجز 13ہیں ۔
اگر ہم بڑے پروجیکٹس کی بات کریں تو وہاں سی پیک ہے، گوادر ایئر پورٹ ہے، خوشحال بلوچستان کے پروجیکٹس ہیں، ڈیم پروجیکٹس ہیں، سولر پینل منصوبے ہیں۔انہوںنے کہاکہ یہ حقیقت ہے اس احساس محرومی کے بیانیے کی، ہم مانتے ہیں کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے مگر ہمارے وسائل میں بلوچستان کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔
مجھے بتائیں کہ بلوچستان میں سیاسی نظام کیا ہے؟ وہی ہے نا جو باقی صوبوں میں ہے، تمام پارٹیاں بلوچستان کی سیاست میں حصہ لیتی ہیں، یہ پارٹیاں نیشنل اور صوبائی حکومتوں کا حصہ رہی ہیں، 17 وزیر اعلی جو بلوچستان کے رہے وہ سب بلوچ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی لیول پر ملک کے وزیر اعظم بلوچ رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان ہیں، عدلیہ ، فوج اور اعلی عہدوں میں بڑی تعداد بلوچوں کی ہے، تو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ان بیانیوں کے پیچھے بیرونی سوچ ہے، اس کو فنڈنگ بھی آتی ہے کہ آپ بیانیہ بنائیں احساس محرومی اور نمائندگی نہ ہونے کا اور وہ دہشتگردوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، یہ دہشتگرد ان کو نشانہ بناتے ہیں جو بلوچستان کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ 25 اگست کو جو ہوا تو انہوں نے برج کو کیوں اڑایا؟ کیا وہ فوجی ٹارگٹ تھا؟ وہ اس لیے اڑایا تاکہ لوگوں کو معاشی مسائل ہوں، اس کی معیشت متاثر ہو تاکہ احساس محرومی کے بیانیے تو تقویت ملے، جو بچے بلوچستان کے لیے دوسرے شہروں سے آکر یہاں کام کرتے ہیں ان کو کیوں ٹارگٹ کیا جاتا ہے؟ یہ ہے وہ گھناؤنا کھیل جو بیرونی فنڈنگ کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق جب ان کا فوج سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو وہ بھی سامنے ہے، انہوں گوادر میں حملے کی کوشش کی، تربت میں نیول بیس گئے اور کیسے ان کی لاشیں گری اور کیسے ہم انہیں نشانہ بنایا، تو پھر یہ سافٹ ٹارگٹس پر جاتے ہیں اور معصوم شہریوں کو بسوں کو اتار کر نشانہ بناتے ہیں، یہ کون سا اسلام ہے کون سا اقدار ہے کہ لوگ کہیں کہ یہ اچھا کام کر رہے،
ہم کہتے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو ہم سے مقابلہ کرو، کیوں معصوم شہریوں پر جاتے ہو؟انہوںنے کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ ان کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے، ان کو یہ جو ظلم ہے اس کا حساب دینا ہوگا، جو بلوچستان کی عوام ہے وہ سمجھتی ہے کہ بلوچستان کی ترقی کا دشمن کون ہے اور وہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں اور بلوچستان اور پاکستان خوشحالی اور ترقی کا سفر جاری رکھیں گے۔

Related Articles

Latest Articles