لاڑکانہ: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رابطے میں رہے تو ان کے لیے کردار ادا کرسکتا ہوں، تاہم وہ مستقل رابطے میں نہیں رہتے۔ انہوں نے اسلام آباد میں حالیہ پُرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین حکومت کی سیکیورٹی کے تمام انتظامات کے باوجود ڈی چوک تک کیسے پہنچ گئے؟
لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کچھی کینال منصوبے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب ایک قوم اور ملک ہیں اور تمام معاملات کو اتفاق رائے سے حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت روز اول سے صوبائی خودمختاری کی حمایت کرتی آئی ہے، لہذا حکومت کو صوبوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ کسی بھی صوبے کو احتجاج پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قیادت کی بات نہیں کر رہا، لیکن کارکن ہمیشہ اپنی جماعت اور قیادت سے مخلص ہوتا ہے۔ ایک اچھے رہنما کا کام کارکن کے جذبات کو اعتدال پر رکھنا اور انہیں مثبت سمت میں رہنمائی دینا ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی جماعت کے دھرنوں اور پی ڈی ایم کے مارچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے آزادی مارچ میں لاکھوں افراد جمع کیے، لیکن کسی بھی موقع پر تشدد نہیں ہوا۔
جے یو آئی کے سربراہ نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ان دونوں صوبوں کی حکومتیں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اور اپوزیشن اگر ایک دوسرے کو جیل میں ڈالنے یا باہر نکالنے کی ضد میں رہیں تو ملک انارکی کا شکار ہوجائے گا۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پی ڈی ایم کے دور میں دینی مدارس کے ڈرافٹ پر زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور نواز شریف کی طویل مشاورت کے بعد اتفاق ہوا تھا، لیکن اب اس پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مولانا نے وعدہ کیا کہ وہ جلد اس مسئلے پر تفصیل سے بات کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین نے ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا، حکومت کے سخت انتظامات کے باوجود وہ وہاں پہنچ گئے اور اسلام آباد میں تشدد کے واقعات پیش آئے، جن کی میں مذمت کرتا ہوں۔
انہوں نے موجودہ سیاسی حالات کا ذمہ دار آئندہ انتخابات کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات کی وجہ سے ملک میں کشیدگی ہے۔ مزید کہا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ 26ویں آئینی ترمیم کو ووٹ نہ دیں، لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا