اسلام آباد: ’’خیبر پختون خواہ کے وزیراعلی اپنی الگ خارجہ پالیسی بنانے کا تماشہ لگا کر پاکستان کی سلامتی اور قومی یکجہتی سے مت کھیلیں۔ انہوں نے جلسے میں صحافیوں، سیاست دانوں اور پنجاب کی خاتون وزیراعلی کے خلاف انتہائی سطحی زبان استعمال کی۔ ہم نے یہ سب کچھ برداشت کر لیا لیکن اْنہیں اِس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ وفاق پاکستان کو کمزور کریں اور اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے لگیں۔ یہ کام وفاقی حکومت کا ہے۔ ہم پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر سطح پر اس مہم جوئی اور آئین شکنی کا راستہ روکیں گے۔‘‘
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آج میں قومی اہمیت کا انتہائی اہم معاملہ ایوان بالا میں رکھنا چاہتا تھا لیکن ایوان کا ماحول خراب ہونے کی وجہ سے اجلاس جلد ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے گنڈاپور نے بار کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اب براہ راست افغانستان سے معاملات طے کریں گے۔ اگلے دن انہوں نے افغانستان کے قونصل جنرل کو طلب کر لیا اور کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ کیا باتیں ہوئیں۔ جو پریس ریلیز جاری کیا گیا اس میں افغان بارڈر کے اْدھر سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی، مسلح افواج، سیکیورٹی اداروں اور عام افراد کی شہادتوں کا کوئی ذکر نہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمن نے بھی اپنے چھ نکات پیش کرتے ہوئے امور خارجہ، دفاع اور کرنسی کے معاملات وفاق کے لیے چھوڑ دیے تھے۔ گنڈا پور چھ نکات سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کی سرحدیں کسی نہ کسی ملک سے ملتی ہیں تو کیا اب ہر صوبہ اپنی الگ خارجہ پالیسی بنائے گا؟
کیا امریکہ کی 50 ریاستوں، چین کے دو درجن صوبوں اور بھارت کی 28 ریاستوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اپنی مرضی کی خارجہ پالیسیاں بنا لیں؟ انہوں نے کہا کہ پی۔ٹی۔آئی غلط روایات ڈال رہی ہے۔ کبھی وہ آئی۔ایم۔ایف کو خط لکھتی ہے کہ پاکستان کی مدد نہ کرو، کبھی وہ امریکی کانگرس سے قراردادیں منظور کراتی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ افغانستان بھی بین الاقوامی ضابطوں اور سفارتی آداب کا خیال رکھے۔ ہم اس کے خلاف احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی مایوسی کا شکار ہو کر ملک دشمنی پر اتر آئی ہے۔