گرمی شروع ہوتے ہی گھروں میں لال بیگوں کی اچانک بھرمار کیوں ہو جاتی ہے؟ یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے۔ یہ چھوٹے مگر تیز رفتار کیڑے نہ صرف گھر کی صفائی پر سوالیہ نشان بناتے ہیں بلکہ کئی بیماریوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔ گرم موسم ان کی سرگرمیوں کا وقت ہوتا ہے، لیکن اس کی کئی سائنسی وجوہات بھی ہیں جو ان کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
لال بیگ ایک ایسا کیڑا ہے جو دنیا کے تقریباً ہر خطے میں پایا جاتا ہے، صرف انٹارکٹیکا اس سے محفوظ ہے۔ اسے قدرت نے زندہ رہنے کی غیر معمولی صلاحیت عطا کی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کھانے کے بغیر تین ماہ، پانی کے بغیر ایک ماہ اور ہوا کے بغیر بھی تقریباً 45 منٹ تک زندہ رہ سکتا ہے۔
لیکن گھروں میں اس کا آ جانا کسی کو پسند نہیں، کیونکہ یہ کیڑا نہ صرف بدصورتی اور بدبو کا سبب بنتا ہے بلکہ صحت کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر جب گرمی کا موسم آتا ہے تو اچانک ہی ان کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کی اہم وجہ درجہ حرارت اور نمی میں اضافہ ہے۔
جب موسم گرم ہوتا ہے تو لال بیگوں کی نشوونما تیز ہو جاتی ہے کیونکہ یہ کیڑے سرد خون والے جاندار ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کے جسم کا درجہ حرارت اردگرد کے ماحول پر منحصر ہوتا ہے، اور گرمی میں ان کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جون، جولائی کے مہینے ان کے پھیلاؤ کے لیے مثالی ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی گرمی کے موسم میں نمی بھی بڑھ جاتی ہے جو ان کیڑوں کے لیے بہت موزوں ماحول فراہم کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق لال بیگ 50 فیصد سے زائد نمی والی جگہوں کو ترجیح دیتے ہیں، اور گرمیوں میں انہیں ایسا ماحول بخوبی میسر آتا ہے۔
اس کے علاوہ، موسم گرما میں انسانوں کی سرگرمیاں بھی باہر زیادہ ہو جاتی ہیں۔ ہم باہر کھانا کھاتے ہیں، گھروں میں پانی کا استعمال بڑھ جاتا ہے، اور اس سب کے نتیجے میں کھانے کے ذرات اور نمی والے مقامات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، جو لال بیگوں کو کھینچ لاتے ہیں۔ کچن، باتھ روم، یا پھر نالے اور پائپ کے اردگرد کے حصے ان کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔
گرمیوں میں دروازے اور کھڑکیاں زیادہ دیر تک کھلی رکھی جاتی ہیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت برقرار رہے، مگر اسی دوران یہ کیڑے بھی باآسانی گھر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ درجہ حرارت کی وجہ سے دیواروں یا فرش کی باریک دراڑیں نمایاں ہو جاتی ہیں، جو ان کیڑوں کے لیے اندر آنے کا نیا راستہ بن جاتی ہیں۔
ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ جب لوگ گرمیوں میں زیادہ تر وقت گھروں سے باہر گزارتے ہیں، جیسے پکنک یا سوئمنگ پولز پر، تو ان سرگرمیوں کے باعث لال بیگوں کے قدرتی ٹھکانے جیسے باغات، تہہ خانے یا گیلے تاریک کونے متاثر ہوتے ہیں، اور وہ مجبوراً گھروں کا رخ کرنے لگتے ہیں۔
لہٰذا اگر آپ گرمیوں میں لال بیگوں سے بچنا چاہتے ہیں تو گھر کو خشک، صاف اور بند رکھنا بے حد ضروری ہے۔ صفائی، سیلنگ اور نمی کو کنٹرول میں رکھ کر ان سے بچاؤ ممکن ہے۔