سپریم کورٹ میں کچی آبادیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر کچی آبادی کا مطلب کچے گھر ہیں تو بلوچستان کا 90 فیصد حصہ کچی آبادی ہے۔ عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے اور دیگر حکام کو طلب کیا اور کچی آبادیوں سے متعلق پالیسی پر سوال اٹھائے۔ سی ڈی اے کے پاس کوئی واضح قانون نہ ہونے پر تنقید کی گئی اور کیس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے کچی آبادیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ اگر کچی آبادی کا مطلب کچے گھر ہیں تو بلوچستان کا 90 فیصد حصہ کچی آبادی کہلائے گا۔
کچی آبادیوں سے متعلق اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کی۔ عدالت نے اگلی سماعت کے لیے چیئرمین سی ڈی اے، ممبر پلاننگ سی ڈی اے، اور سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ اس کے علاوہ عدالت نے کچی آبادیوں سے متعلق بنائی گئی ورکنگ کمیٹی کے اجلاسوں کے منٹس بھی مانگے ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ سی ڈی اے کی کچی آبادیوں کے لیے کیا پالیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں تو کچی آبادیوں کے لیے ایکٹ موجود ہے۔ سی ڈی اے کے وکیل منیر پراچہ نے جواب دیا کہ کچی آبادیوں سے متعلق قانون سازی کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سی ڈی اے کو چاہیے کہ وہ وفاقی حکومت کو کچی آبادیوں کے لیے قانون سازی کی تجویز دے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ڈپلومیٹک انکلیو کے قریب کچی آبادی کا ہونا خطرناک ہے۔
سی ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ ہم کچھ کچی آبادیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت سی ڈی اے کچھ کچی آبادیوں کو تسلیم کرتا ہے اور کچھ کو نہیں؟ وکیل نے کہا کہ کوئی قانون نہیں ہے، ہم بس کچھ کچی آبادیوں کو ویسے ہی تسلیم کر لیتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کچی آبادی کہتے کسے ہیں؟ اگر کچی آبادی کا مطلب کچے گھر ہیں تو پھر بلوچستان کا 90 فیصد حصہ کچی آبادی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 2016 سے سپریم کورٹ کچی آبادیوں کے لیے قانون سازی کا حکم دے رہی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس 2015 سے زیر التوا ہے اور 10 سال گزرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔
سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے اسلام آباد میں کچی آبادیاں اور تجاوزات بڑھ رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سی ڈی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ آخر میں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔