پسینہ جو رزق کا چراغ جلائے

مصنف: ایم اے زیب رضا خان

یکم مئی کا دن محض ایک تاریخ نہیں بلکہ محنت، استقامت، قربانی اور حقوق کی جدوجہد کی وہ صدا ہے جو آج بھی زمانے کے کانوں میں گونجتی ہے۔ 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں نے آٹھ گھنٹے کے اوقاتِ کار کے حق میں آواز بلند کی، ظلم کے خلاف ڈٹ گئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا کو بتا دیا کہ محنت کش فقط مزدور نہیں، وہی اصل معمارِ تہذیب ہے۔ ان قربانیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں مزدوروں کا دن تسلیم کیا گیا، مگر افسوس! آج ایک صدی سے زائد وقت گزرنے کے باوجود وہی مزدور پھر سے محرومی، استحصال اور ناانصافی کی چکی میں پس رہا ہے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں مزدور کے حالات نہایت تشویشناک ہیں۔ دیہاڑی دار ہو یا فیکٹری ورکر، زمیندار کا ہاری ہو یا ریڑھی لگانے والا، سب کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا ایک جنگ بن چکی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، تنخواہیں جوں کی توں ہیں، سوشل سیکیورٹی کا نظام بوسیدہ ہے، اور لیبر قوانین صرف فائلوں میں دفن ہیں۔ اکثریت مزدور بغیر کسی کنٹریکٹ، طبی سہولیات اور پنشن کے کام کرنے پر مجبور ہے۔ جو ادارے مزدور کے حقوق کے محافظ بننے کے دعوے دار تھے، وہ خود ان کے استحصال میں شریک نظر آتے ہیں۔

جدید دور میں جہاں مشینوں نے انسانی محنت کی جگہ لی ہے، وہاں مزدور کو بےکار، غیر ضروری اور بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ ٹھیکیداری نظام نے حالات کو اور بھی ابتر کر دیا ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے صنعتکار اربوں روپے کما رہے ہیں، دوسری طرف انہی کی فیکٹریوں میں مزدور دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ کہیں تنخواہیں روک لی جاتی ہیں، کہیں اوورٹائم کے پیسے نہیں دیے جاتے، اور کہیں پر ہراسگی و جبر عام ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے معاشرے میں ہو رہا ہے جو خود کو اسلامی اور فلاحی ریاست کہلاتا ہے۔

اسلام نے مزدور کے حقوق کا تعین بہت پہلے کر دیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ لیکن یہاں تو مزدور کے پسینے سے چمکتے چراغ صرف سرمایہ داروں کے محل روشن کرتے ہیں، مزدور خود اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یومِ مزدور کو محض ایک رسمی چھٹی یا بینر بازی کا دن نہ بنائیں، بلکہ اس دن کی روح کو زندہ کریں۔ لیبر قوانین پر حقیقی عمل درآمد ہو، کم از کم اجرت مہنگائی کے تناسب سے مقرر کی جائے، ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کیا جائے، مزدوروں کی یونینز کو بااختیار بنایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم معاشرتی سطح پر مزدور کو عزت دیں، کیونکہ جو اپنے محسن کو پہچان نہ سکے وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی۔

آج بھی اگر ہم نے اس پسینے کی حرمت کو نہ پہچانا، تو کل ہماری دیواروں میں دراڑیں پڑیں گی، ہمارے کارخانے بند ہوں گے اور ہمارے محل و دفاتر سنسان ہو جائیں گے۔ کیونکہ معیشت کی نبض ان ہاتھوں میں ہے جو سحر سے شام تک مسلسل کام کرتے ہیں، جو جسمانی تھکن سے زیادہ سماجی ناقدری کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
یقین مانیے! مزدور کا ہاتھ وہ ہاتھ ہے جس پر مہذب معاشروں کی بنیاد قائم ہے، اور جب تک ہم ان ہاتھوں کو عزت نہ دیں، ہم حقیقی ترقی کے خواب دیکھنے کے حقدار نہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین