صحافت کا عالمی دن اور زمینی حقائق

تحریر: اے ناز ایڈووکیٹ

ہر سال 3 مئی کو عالمی یومِ آزادی صحافت منایا جاتا ہے، ایک دن جو سچ کی تلاش میں اپنی جانوں کی بازی لگانے والے صحافیوں کی بہادری، حقائق کی ترسیل کے لیے ان کی انتھک جدوجہد، اور جمہوریت کے چوتھے ستون کی اہمیت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ صحافت صرف ایک پیشہ نہیں، بلکہ ایک مشن ہے جو معاشرے کو باخبر رکھنے، بدعنوانی کو بے نقاب کرنے، اور عوام کی آواز کو بلند کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں معلومات کی موسلادھار بارش ہر لمحہ ہم پر برس رہی ہے، صحافت اپنی روایتی شکل سے نکل کر ایک نئے روپ میں ڈھل چکی ہے۔ لیکن اس ترقی کے ساتھ نئے چیلنجز بھی آئے ہیں، جن سے نمٹنا صحافیوں کے لیے ایک امتحان ہے۔ یہ کالم موجودہ دور میں صحافت کی بدلتی شکل، صحافیوں کے تقاضوں، ان کے سامنے موجود مشکلات، شہید صحافیوں کی قربانیوں، اور پرنٹ میڈیا کے مستقبل پر روشنی ڈالتا ہے، جبکہ سوشل میڈیا کے اثرات کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
موجودہ دور میں صحافت کی شکل
صحافت آج ایک ایسی چوراہے پر کھڑی ہے جہاں روایتی پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز کی بدولت صحافت اب صرف اخبارات اور ٹیلی ویژن تک محدود نہیں رہی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس، فیس بک، اور یوٹیوب نے شہری صحافت (citizen journalism) کو جنم دیا ہے، جہاں عام افراد بھی خبروں کی ترسیل میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2023 تک دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 5.3 ارب سے تجاوز کر چکی ہے، جو عالمی آبادی کا 66 فیصد ہے۔ اس ڈیجیٹل انقلاب نے صحافت کو تیز تر، زیادہ قابلِ رسائی، لیکن ساتھ ہی زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہے۔آج کی صحافت میں رفتار (speed) اور درستگی (accuracy) کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ جہاں ایک طرف سوشل میڈیا پر خبروں کی فوری ترسیل نے روایتی میڈیا کو چیلنج کیا ہے، وہیں غلط معلومات (misinformation) اور جعلی خبروں (fake news) کا سیلاب صحافت کی ساکھ کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے 2023 میں عالمی یومِ آزادی صحافت کے موقع پر کہا تھا کہ "غلط معلومات، نفرت پر مبنی بیانات، اور صحافیوں پر حملے آزادیِ صحافت کے لیے سنگین خطرات ہیں۔” اس صورتِ حال نے صحافیوں پر ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ میں نہ صرف حقائق کی جانچ پڑتال کریں، بلکہ معاشرے میں مثبت مکالمے کو فروغ دیں۔
صحافیوں کے تقاضے: موجودہ دور کے چیلنجز
موجودہ دور کا صحافی ایک کثیر جہتی شخصیت ہونا چاہیے، جو نہ صرف تحریر و تحقیق میں مہارت رکھتا ہو، بلکہ ڈیجیٹل ٹولز، ڈیٹا جرنلزم، اور سوشل میڈیا کی پیچیدگیوں سے بھی واقف ہو۔ ایک صحافی کو درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے:
حقائق کی تصدیق: جعلی خبروں کے اس دور میں، صحافی کو ہر خبر کی صداقت کی جانچ کے لیے معتبر ذرائع اور فیکٹ چیکنگ ٹولز (جیسے Snopes یا Google Fact Check) استعمال کرنا چاہیے۔
اخلاقیات کا خیال: صحافتی اخلاقیات، جیسے رازداری کا احترام، غیر جانبداری، اور حساس موضوعات پر رپورٹنگ میں احتیاط، ایک صحافی کی ساکھ کی بنیاد ہیں۔
ڈیجیٹل مہارت: ویڈیو ایڈیٹنگ، ڈیٹا ویژولائزیشن، اور سوشل میڈیا مینجمنٹ جیسی مہارتیں آج کے صحافی کے لیے ناگزیر ہیں۔
قانونی آگاہی: صحافیوں کو اپنے حقوق اور قانونی حدود کا علم ہونا چاہیے، خاص طور پر تنازعات والے علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران۔
ثقافتی حساسیت: عالمی سطح پر رپورٹنگ کرتے وقت، صحافی کو مختلف ثقافتوں اور روایات کا احترام کرنا چاہیے تاکہ تعصب سے بچا جا سکے۔
شہید صحافی
صحافت ایک خطرناک پیشہ ہے، خاص طور پر تنازعات والے علاقوں میں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) کے مطابق، 1992 سے 2024 تک دنیا بھر میں 1,500 سے زائد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ صرف 2023 میں، 99 صحافی شہید ہوئے، جن میں سے زیادہ تر فلسطین-اسرائیل تنازع اور یوکرین جنگ کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فلسطین میں 2023 کے آخر تک 83 صحافی ہلاک ہوئے، جو کسی ایک سال میں کسی ایک تنازع میں صحافیوں کی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
پاکستان بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں شامل ہے۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (RSF) کے مطابق، 2003 سے 2023 تک پاکستان میں 60 سے زائد صحافی قتل ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی کیسز ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے علاقوں میں صحافیوں کو سکیورٹی اداروں، مسلح گروہوں، اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔
صحافیوں کی مشکلات
صحافیوں کو آج متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں شامل ہیں:
جانی خطرات: تنازعات والے علاقوں میں صحافیوں کو اغوا، تشدد، اور قتل کے خطرات لاحق ہیں۔ مثال کے طور پر، غزہ میں صحافیوں کو نہ صرف جنگی حالات کا سامنا ہے، بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
غلط معلومات کا پھیلاؤ: سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کی بھرمار نے صحافیوں کے لیے معتبر معلومات کی ترسیل کو مشکل بنا دیا ہے۔
مالی دباؤ: میڈیا اداروں کی آمدنی میں کمی کی وجہ سے صحافیوں کو کم تنخواہوں اور غیر یقینی ملازمتوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں 20,000 سے زائد خواتین صحافیوں سمیت بہت سے صحافی مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔
سنسرشپ اور دباؤ: کئی ممالک میں حکومتیں اور طاقتور گروہ صحافیوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔
صنفی چیلنجز: خواتین صحافیوں کو اضافی مشکلات، جیسے صنفی امتیازی سلوک اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ پشاور میں خواتین صحافیوں نے ثقافتی رکاوٹوں اور سماجی دباؤ کی شکایت کی ہے۔
پرنٹ میڈیا کا مستقبل: خاتمہ یا ارتقا؟
سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پرنٹ میڈیا اپنی اہمیت کھو چکا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کی قارئین کی تعداد میں کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس کی اہمیت اب بھی مسلمہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 2023 میں دنیا بھر میں اخبارات کی فروخت میں 7 فیصد کمی ہوئی، لیکن مستند خبروں اور گہرے تجزیوں کے لیے پرنٹ میڈیا اب بھی ایک معتبر ذریعہ ہے۔
پاکستان میں بڑے میڈیا ہاؤسز جیسے جنگ، ڈان، اور ایکسپریس اپنے پرنٹ ایڈیشنز کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی موجود ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پرنٹ میڈیا مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، بلکہ یہ ارتقا پذیر ہے۔ اخبارات کے ادارتی صفحات اور گہرائی سے لکھے گئے مضامین قارئین کے لیے اب بھی معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ مزید برآں، سوشل میڈیا پر خبروں کی بھرمار کے باوجود، پرنٹ میڈیا کی مستند دستاویزی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
سوشل میڈیا نے جہاں صحافت کو تیز تر اور زیادہ قابلِ رسائی بنایا، وہیں اس نے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو بھی آسان بنا دیا۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق، 2022 میں 60 فیصد سے زائد سوشل میڈیا صارفین نے جعلی خبروں کا سامنا کیا۔ اس تناظر میں، پرنٹ میڈیا کی اہمیت بطور ایک مستند ذریعہ اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیونکہ یہ تفصیلی رپورٹنگ اور حقائق کی تصدیق پر زور دیتا ہے۔
عالمی یومِ آزادی صحافت ہمیں یہ عہد کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ ہم صحافیوں کی قربانیوں کو فراموش نہ کریں اور ان کے لیے ایک محفوظ اور آزاد ماحول کو یقینی بنائیں۔ صحافت آج بھی معاشرے کا آئینہ ہے، جو ہمیں ہماری خامیوں، کمزوریوں، اور امکانات سے روشناس کراتی ہے۔ پرنٹ میڈیا ہو یا ڈیجیٹل، صحافت کی روح سچ کی تلاش اور عوام کی خدمت میں پنہاں ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر اس مشن کی حمایت کریں، صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کریں، اور ایک ایسی دنیا کی تعمیر میں حصہ ڈالیں جہاں سچ کی آواز کو دبایا نہ جا سکے۔ یہ نہ صرف صحافت کا، بلکہ ہماری جمہوریت اور انسانیت کا تقاضا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین