والدین کی سہولت پسندی اور عدم توجہی بچوں میں موبائل کی لت کی اصل وجہ ہے۔ توجہ، وقت، کھیل اور کہانیوں سے انہیں اس عادت سے بچایا جا سکتا ہے لیکن پہلے خود کو بدلنا ہوگا
چھوٹے بچوں میں موبائل فون دیکھنے کی عادت ایک ایسا مسئلہ بن چکی ہے جو نہ صرف ان کی ذہنی، جسمانی اور سماجی نشوونما کو متاثر کرتا ہے بلکہ والدین کے لیے بھی پریشانی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عادت کی ابتدا والدین کی جانب سے ہی ہوتی ہے۔ جب بچہ روتا ہے تو ماں باپ یا دیگر قریبی افراد اس کے ہاتھ میں موبائل تھما دیتے ہیں، تاکہ وہ چپ ہو جائے یا کسی اور طرف متوجہ ہو جائے۔ یوں بچہ شروع سے ہی یہ سیکھ لیتا ہے کہ موبائل نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہے بلکہ رونے یا ضد کرنے کا انعام بھی ہے۔
اکثر گھروں میں مائیں جب کاموں میں مصروف ہوتی ہیں تو وہ بچوں کو موبائل دے کر بٹھا دیتی ہیں تاکہ وہ خلل نہ ڈالے۔ اسی طرح خاندان کے دوسرے افراد بھی بچوں کو خوش کرنے کے لیے یوٹیوب یا گیمز دکھا دیتے ہیں۔ یوں آہستہ آہستہ یہ ایک روزمرہ معمول بن جاتا ہے اور پھر جب والدین اس عادت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بچے شدید ردعمل دیتے ہیں، روتے ہیں، چیختے ہیں اور ضد کرتے ہیں۔ لیکن یہ ردعمل اسی تربیت کا نتیجہ ہے جو والدین نے خود انہیں دی ہوتی ہے۔
اس عادت کی اصل جڑ والدین کا طرزِ عمل ہے۔ بہت سے ماں باپ خود بھی موبائل فون میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ بچے ان کی توجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بچوں کو جب پیار، گفتگو اور توجہ نہ ملے تو وہ ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جہاں انہیں رنگ، آواز، حرکت اور فوری ردعمل ملتا ہے۔ موبائل فون ان تمام عناصر کا مجموعہ ہے، اس لیے وہ بچوں کو بہت لبھاتا ہے۔
بچوں میں موبائل کی لت کو روکنے کے لیے سب سے پہلے والدین کو اپنی ترجیحات کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر وہ خود موبائل یا ٹی وی میں مصروف رہیں گے تو بچوں کو روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ گھر میں ایسا ماحول بنانا ہوگا جہاں موبائل صرف ضرورت تک محدود ہو، نہ کہ تفریح اور خاموشی کا آسان ذریعہ۔ مائیں اگر دن میں کچھ وقت بچوں کے ساتھ کھیلنے، کہانیاں سنانے اور بات چیت میں گزاریں تو بچے قدرتی طور پر اس طرف مائل ہو جائیں گے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ بچے سب سے زیادہ توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ جب انہیں محبت، مصروفیت اور رفاقت ملتی ہے تو وہ کسی اسکرین سے بندھے نہیں رہتے۔
رات کو سونے کا وقت بچوں کی ذہنی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آج کل کے بہت سے بچے دیر تک جاگتے ہیں کیونکہ وہ موبائل یا ٹی وی میں لگے رہتے ہیں۔ اگر والدین خود جلدی سونے لگیں اور گھر میں نیند کے لیے مناسب ماحول پیدا کریں تو بچوں میں بھی وقت پر سونے کی عادت پروان چڑھ سکتی ہے۔ سونے سے پہلے کہانی سنانا، لوری دینا، یا ہلکی موسیقی سنانا وہ روایتی طریقے ہیں جنہیں دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ والدین بچوں کے لیے ایک متوازن روزمرہ ترتیب دیں، جس میں مطالعہ، کھیل، گھریلو ذمہ داریاں اور اہلِ خانہ کے ساتھ وقت شامل ہو۔ جب بچے کا دن بھر کا وقت مثبت سرگرمیوں میں گزرے گا تو اس کے پاس موبائل مانگنے کی گنجائش ہی کم رہ جائے گی۔ اسی طرح اگر بچہ ضد کرے یا رونا شروع کرے تو فوری طور پر موبائل دینے کے بجائے اس کے ساتھ کھیلنے یا کہانی سنانے کی کوشش کریں۔ وہ لمحہ وقتی طور پر شاید مشکل ہو، لیکن بار بار یہ طرزِ عمل اختیار کرنے سے بچے کے رویے میں تبدیلی آ سکتی ہے۔
یاد رکھیں کہ بچے جو دیکھتے ہیں، وہی سیکھتے ہیں۔ اگر وہ یہ دیکھیں گے کہ ان کے والدین بھی ہر وقت اسکرین کے سامنے ہیں تو وہ بھی یہی رویہ اختیار کریں گے۔ اس لیے سب سے پہلا قدم والدین کو خود اٹھانا ہوگا۔ صرف بچوں کو روکنے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک کہ خود بالغ افراد اس عادت میں تبدیلی نہ لائیں۔
موبائل ایک ٹول ہے، اس کا غلط یا بے جا استعمال ہی اسے مسئلہ بناتا ہے۔ بچوں کی ابتدائی عمر ان کی شخصیت کی بنیاد رکھتی ہے۔ اگر اسی مرحلے پر ان کا وقت اسکرینز کی نذر ہو جائے تو وہ حقیقی زندگی کے تجربات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو حقیقی دنیا سے جوڑیں، ان کے ساتھ چلیں، کھیلیں، بات کریں، اور سب سے بڑھ کر انہیں اپنی محبت اور توجہ دیں۔
مسئلہ صرف موبائل کا نہیں، اصل مسئلہ والدین کے رویے اور وقت کی تقسیم کا ہے۔ جب یہ درست ہو جائے تو بچوں کو موبائل کی عادت سے چھڑانا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔