تحریر: غلام مرتضی
حج، اسلام کا پانچواں رکن اور اللہ کی محبت و قربت کا وہ عظیم مظہر ہے جو ہر سال لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کو ایک ہی جذبے سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ محض ایک عبادت نہیں، بلکہ ایک روحانی سفر ہے جو بندے کو اس کے خالق کے حضور جھکنے اور اپنی ہستی کو سچائی کے نور میں ڈھالنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ماہِ ذی الحجہ کی آمد کے ساتھ ہی دنیا بھر سے مسلمان مکہ مکرمہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں، اپنے رب کی عظمت کے سامنے سر جھکاتے ہیں اور اﷲ اکبر، اﷲ اکبر، لاالٰہ الا اﷲ واﷲ اکبر، اﷲ اکبر وﷲ الحمد ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صداؤں سے فضا کو معطر کرتے ہیں۔ یہ منظر ایمان کی معراج اور عشقِ الٰہی کی بے مثال تصویر ہے۔
حج کی روحانی و شرعی اہمیت
لغوی طور پر ’’حج‘‘ کا معنیٰ ہے کسی عظیم مقصد کی طرف قصد کرنا۔ شرعی اصطلاح میں یہ اللہ کے گھر، بیت اللہ کی زیارت اور ایامِ حج میں مخصوص مناسک کی ادائیگی کا نام ہے۔ قرآنِ مجید نے حج کو فرض قرار دیتے ہوئے اسے صاحبِ استطاعت افراد پر واجب کیا ہے۔ سورۃ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘‘
اسی طرح سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں تاکہ وہ دور دراز سے پیدل اور سواریوں پر سوار ہو کر اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے حاضر ہوں۔
حج کی فضیلت احادیثِ مبارکہ میں بارہا بیان ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اللہ کے لیے حج کرے اور اس دوران نہ فحش گوئی کرے اور نہ کوئی گناہ کرے، وہ اس دن کی طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری)
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’حجِ مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
یہ فضائل اس بات کی دلیل ہیں کہ حج نہ صرف گناہوں سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ بندے کو اللہ کی رضا اور جنت کا حق دار بھی بناتا ہے۔
حج ایک ایسی عبادت ہے جو رنگ، نسل، زبان اور قومیت کی تمام حدیں توڑ دیتی ہے۔ مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر جب لاکھوں عازمین ’’لبیک‘‘ کی صدا بلند کرتے ہیں تو یہ منظر انسانیت کی وحدت اور مساوات کی روشن مثال بن جاتا ہے۔ یہاں کوئی بادشاہ اور کوئی غلام نہیں، سب ایک ہی احرام میں ملبوس، ایک ہی رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع نہ صرف ایمانی جذبے کو جلا بخشتا ہے بلکہ عالمِ اسلام کے اتحاد کی عظیم تصویر بھی پیش کرتا ہے۔
حج کے ساتھ مدینہ منورہ کی زیارت اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری اس سفر کی روحانی تکمیل کرتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی‘‘ (سنن دارقطنی)
مدینہ منورہ کی سرزمین وہ مقدس مقام ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی خوشبو آج بھی موجود ہے۔ یہ زیارت حاجی کے دل کو محبتِ رسول سے منور کرتی ہے اور اسے اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کا موقع دیتی ہے۔
تاریخی واقعات عشقِ حج کی داستانیں
اسلام کی تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے جو حج کے لیے مسلمانوں کی دیوانگی اور عقیدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایک ایسی ہی داستان کشمیر کے بزرگ جوڑے، محمد اور صفیہ کی ہے۔ نوے سال کی عمر میں انہوں نے ستر برس کی محنت سے جمع کی ہوئی رقم سے حج کی سعادت حاصل کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اب ان کی کیا خواہش ہے، تو ان کا جواب تھا:
’’ہم ایک اور حج کی تمنا رکھتے ہیں، اللہ ہمیں اور ستر برس دے تو ہم انتظار کریں گے۔‘‘
یہ جواب اس عشق کی عظیم گواہی ہے جو ایک مومن کے دل میں بیت اللہ کے لیے جاگتا ہے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ خلیفہ مامون الرشید کے دور کا ہے۔ ایک شخص نے ان سے حج کے لیے زادِ راہ مانگا۔ مامون نے کہا کہ اگر وہ صاحبِ مال ہے تو سوال کیوں کر رہا ہے، اور اگر نہیں تو اس پر حج فرض ہی نہیں۔ اس شخص نے بے ساختہ جواب دیا:
’’میں آپ کو بادشاہ سمجھ کر آیا ہوں، مفتی نہیں۔ شہر میں آپ سے بہتر مفتی موجود ہیں۔ یا تو مدد کریں یا انکار کر دیں۔‘‘
یہ جواب سن کر مامون حیران رہ گیا اور اسے زادِ راہ دے دیا۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ حج کی خواہش ہر مومن کے دل میں کس قدر گہری ہوتی ہے۔
آج کے دور میں حج کی ادائیگی اگرچہ ماضی کی نسبت آسان ہو گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے سفر کو سہل بنا دیا، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور عازمین کی تعداد نے انتظامی مشکلات کو جنم دیا ہے۔ سعودی حکومت ہر سال عازمین کی سہولت کے لیے بے پناہ وسائل خرچ کرتی ہے، لیکن پھر بھی کبھی کبھار حادثات یا غیر متوقع واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بعض عازمین کی جانب سے مناسکِ حج کے دوران شرعی ہدایات پر عمل نہ کرنا بھی مسائل کا باعث بنتا ہے۔
حج ہمیں صبر، قربانی اور اتحاد کا درس دیتا ہے۔ احرام کی سادگی ہمیں دنیاوی نمود و نمائش سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہے۔ میدانِ عرفات میں دعا و استغفار ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ کا موقع دیتے ہیں۔ اور رمیِ جمرات ہمیں شیطان کے وسوسوں سے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ سب اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ زندگی ایک امتحان ہے اور اللہ کی رضا اسی میں ہے کہ ہم اس کے احکامات پر عمل کریں۔
حج صرف ایک عبادت نہیں، بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو ہمیں اللہ کی بندگی، انسانیت کی خدمت اور اتحاد کا سبق سکھاتا ہے۔ یہ وہ عظیم سفر ہے جو ہر مومن کے دل میں اپنے رب سے ملاقات کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ آئیے، اس عظیم فریضے کی قدر کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہر مسلمان کو یہ سعادت نصیب فرمائے۔ حج کے اس روحانی سفر میں شامل ہر عازم کی دعائیں قبول ہوں، اور یہ سفر ہر ایک کے لیے ایمان کی معراج ثابت ہو۔ آمین۔