عالمی اقتصادی بحران، تجارتی پابندیاں اور بڑھتی ہوئی کشمکش نے سونے کو ایک بار پھر سرمایہ کاروں کا آخری سہارا بنا دیا ہے۔ عالمی مرکزی بینکوں کی جانب سے سونا خریدنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے، جس سے سونے کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔
عالمی مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام بڑھنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں اور خودمختار ریاستوں نے سونا خریدنے کی جانب تیزی سے قدم بڑھایا ہے۔ تجارتی پابندیاں، اقتصادی جنگ، اور عالمی تناؤ نے سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات نے عالمی مارکیٹ میں ہلچل پیدا کی، امریکی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی آئی، ڈالر کی قدر کم ہوئی، اور امریکی ٹریژری بانڈز جو پہلے محفوظ سمجھے جاتے تھے، اب تیزی سے فروخت ہو گئے۔
ان حالات میں سونا ایک بار پھر سرمایہ کاری کا مرکز بن گیا۔ اپریل 2025 کے اختتام تک سونے کی قیمت 3,300 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی، جو کہ ایک تاریخی سطح ہے۔ عالمی مرکزی بینکوں نے سال کی پہلی سہ ماہی میں 290 ٹن سے زائد سونا خریدا، جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
چین، ترکی، بھارت اور جرمنی جیسے ممالک نہ صرف سونا خرید رہے ہیں بلکہ اسے اپنے ملک میں منتقل بھی کر رہے ہیں۔ جرمن حکومت نے نیویارک اور پیرس سے 670 ٹن سونا واپس اپنے ملک منتقل کیا ہے، اور سیاسی دباؤ کے تحت باقی ذخائر کی واپسی پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔