پاکستان میں ہر چوتھا شادی شدہ جوڑا بانجھ پن میں مبتلا، بے اولادی سے متعلق چونکا دینے والا انکشاف

قریبی رشتوں میں شادیوں کی شرح بہت زیادہ ہے، جو موروثی ہارمونل مسائل کو بڑھا دیتی ہے۔

پاکستان میں بانجھ پن ایک تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور ماہرین کے مطابق ہر چوتھا جوڑا اس کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خواتین میں "پولی سسٹک اووری سنڈروم” یعنی پی سی او ایس ہے، جو نہ صرف حمل میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ اسقاط حمل کا سبب بھی بن رہی ہے۔ ماہرین نے اس مرض کی وجوہات، اثرات اور علاج کے متعلق تفصیل سے آگاہ کیا اور اس کے تدارک کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا۔

پاکستان میں ہر چار میں سے ایک جوڑا بانجھ پن جیسے سنگین مسئلے کا شکار ہے، اور اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ خواتین میں تیزی سے بڑھتا ہوا مرض ’پولی سسٹک اووری سنڈروم‘ (PCOS) ہے، جو تولیدی عمر کی تقریباً 52 فیصد خواتین کو متاثر کر رہا ہے۔

ماہرین امراضِ نسواں کے مطابق پی سی او ایس اب خاموشی سے پاکستانی خواتین میں ہارمونل عدم توازن، بانجھ پن اور حمل ضائع ہونے کی سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔

ڈاکٹر زبیدہ مسعود نے ایک آگاہی سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سیمینار پاکستان کی ’پی سی او ایس، ایڈولیسنٹ اینڈ ری پروڈکٹیو ہیلتھ سوسائٹی‘ نے ایندومیٹریوسس اینڈ ایڈینومائیوسس سوسائٹی اور ایک مقامی دوا ساز کمپنی کے تعاون سے منعقد کیا تھا۔

ڈاکٹر زبیدہ کے مطابق پی سی او ایس حاملہ ہونے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، اور جن خواتین کو حمل ٹھہر بھی جائے، ان میں اسقاطِ حمل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے بیماری کی وجوہات میں قریبی رشتے میں شادی (کزن میرج)، موروثی اثرات، موٹاپا اور سست طرزِ زندگی کو ذمہ دار قرار دیا۔ڈاکٹر زبیدہ کا کہنا تھا کہ نیم حکیم اور غیر رجسٹرڈ افراد کی تجویز کردہ ادویات خواتین میں رحم اور بیضہ دانی کے کینسر کا سبب بن رہی ہیں۔

سیمینار کے مہمانِ خصوصی، پروفیسر ڈاکٹر جین کونی، جو عالمی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف گائناکالوجی اینڈ آبسٹیٹرکس کی صدر اور امریکن کالج آف آبسٹیٹریشینز اینڈ گائناکالوجسٹس کی سابق صدر ہیں، نے کہا کہ پی سی او ایس محض تولیدی مسئلہ نہیں بلکہ ایک پیچیدہ ہارمونل اور میٹابولک بیماری ہے جو خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کو متاثر کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں نوجوان اور غیر شادی شدہ لڑکیوں میں یہ بیماری برسوں تک بغیر تشخیص کے رہتی ہے، کیونکہ حیض اور تولیدی صحت پر بات کرنا ایک سماجی پابندی سمجھی جاتی ہے۔ شادی شدہ خواتین کو بھی اکثر اس وقت پتا چلتا ہے جب وہ ماں بننے میں ناکام رہتی ہیں۔

ڈاکٹر کونی نے خبردار کیا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بیماری خاموش وبا کی صورت اختیار کر کے ایک پوری نسل کی تولیدی صحت کو متاثر کر سکتی ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں قریبی رشتوں میں شادیوں کی شرح بہت زیادہ ہے، جو موروثی ہارمونل مسائل کو بڑھا دیتی ہے۔ ساتھ ہی 80 فیصد سے زائد پاکستانی خواتین موٹاپے کا شکار ہیں، جو انسولین کی مزاحمت پیدا کرتا ہے، اور یہی پی سی او ایس کی ایک بڑی وجہ ہے۔

اس مرض کی علامات میں حیض کی بے قاعدگی، چہرے پر غیر ضروری بال، کیل مہاسے، بال جھڑنا، بیضہ دانی میں رسولیاں، ذہنی دباؤ اور اعتماد کی کمی شامل ہیں۔

ڈاکٹر کونی نے کہا کہ اگر بیماری کی جلد تشخیص ہو جائے اور طرزِ زندگی میں تبدیلی کی جائے تو بہتری ممکن ہے۔ صرف 5 سے 10 فیصد وزن کم کرنے سے ہارمونی توازن اور زرخیزی بہتر ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں اس بیماری کے علاج کے لیے میٹفارمن، ہارمونی ادویات، کلومفین سائٹریٹ، لیٹروزول اور اینٹی اینڈروجنز جیسی دوائیں استعمال کی جا رہی ہیں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ہانی ڈبلیو فوزی، جو برطانیہ کے ساؤتھ ٹائنسائیڈ NHS میں کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ اور عالمی سطح پر ایمرجنسی آبسٹیٹرک کیئر کے ٹرینر ہیں، نے کہا کہ پی سی او ایس کے مؤثر علاج کے لیے ایک مربوط ٹیم ورک ضروری ہے جس میں غذائی ماہر، ذہنی صحت کے ماہر، اینڈوکرائنولوجسٹ اور گائناکالوجسٹ شامل ہوں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ادویات کے ساتھ ساتھ ہر مریض کے سماجی و ثقافتی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے طرزِ زندگی میں تبدیلی اور مشاورت اس بیماری کے خلاف مؤثر ہتھیار ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر شاہین ظفر، ڈاکٹر رضیہ کوریشی، ڈاکٹر یاسمین نعمان اور ڈاکٹر صائمہ زبیر نے بھی اہم خیالات کا اظہار کیا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین