وفاقی حکومت کا الیکٹرک بائیکس دو سالہ اقساط پر فراہم کرنے کا اعلان

اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور بینکنگ ایسوسی ایشن مل کر اسکیم کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ ابتدائی منصوبے کے تحت ہر الیکٹرک بائیک پر 50 ہزار روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی

وفاقی حکومت نے ملک میں ماحولیاتی بہتری، توانائی کی بچت اور جدید سفری سہولیات کے فروغ کے لیے ایک جامع اور دوررس اقدام کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت 1 لاکھ 16 ہزار الیکٹرک بائیکس آئندہ دو سالوں میں آسان اقساط پر عوام کو فراہم کیے جائیں گے۔ یہ اقدام نہ صرف ملک میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کا آغاز ہے بلکہ توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کی جانب بھی ایک مؤثر پیش قدمی ہے۔

یومِ آزادی پر تاریخی اعلان متوقع

ذرائع کے مطابق، وزیرِاعظم شہباز شریف 14 اگست کو قوم سے خطاب کے دوران اس نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی کا باضابطہ اعلان کریں گے۔ یہ اسکیم ملک میں ایک نئے دور کی شروعات ہوگی، جہاں پیٹرول اور ڈیزل پر انحصار کم کر کے صاف اور ماحولیاتی دوست ذرائع کو فروغ دیا جائے گا۔

الیکٹرک بائیکس اسکیم کی تفصیلات

اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور بینکنگ ایسوسی ایشن مل کر اسکیم کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ ابتدائی منصوبے کے تحت ہر الیکٹرک بائیک پر 50 ہزار روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی۔ باقی ماندہ رقم، جو کہ تقریباً 2 لاکھ روپے یا اس سے زائد ہو سکتی ہے، صارفین کو آسان اقساط میں ادا کرنا ہوگی۔

فی بائیک کی متوقع قیمت 2 لاکھ 50 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ یہ بائیکس عام افراد، طلبہ، ملازمین، اور چھوٹے کاروباری طبقے کے لیے نہایت سودمند ثابت ہوں گی، کیونکہ ان سے نہ صرف ایندھن کی بچت ہوگی بلکہ ماہانہ اخراجات میں بھی واضح کمی آئے گی۔

عمر کی حد اور اہلیت

اس اسکیم کے لیے اہلیت کی عمر 18 سے 65 سال مقرر کی گئی ہے، تاکہ نوجوان طبقہ، جو سب سے زیادہ موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے، اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس پالیسی کے تحت فائدہ حاصل کریں اور روایتی ایندھن سے نجات کی راہ ہموار ہو۔

ملکی سطح پر تیاری اور پیداواری اہداف

حکومت نے اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے 17 مقامی کمپنیوں کو الیکٹرک بائیکس تیار کرنے کا لائسنس بھی جاری کر دیا ہے، جس سے مقامی سطح پر پیداوار، روزگار اور صنعتی ترقی کو فروغ ملے گا۔ پالیسی کے تحت 2030 تک 30 فیصد ٹریفک کو الیکٹرک ویہیکلز پر منتقل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جبکہ 2040 تک 90 فیصد اور 2060 تک 100 فیصد وہیکل فلیٹ کو زیرو ایمیشن ماڈل پر لانے کا منصوبہ بھی ترتیب دیا گیا ہے۔

سبسڈی کا مالیاتی منصوبہ

حکومت نے اس جامع پالیسی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے آئندہ پانچ سالوں میں 100 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سال بہ سال اس سبسڈی کی تقسیم کچھ یوں ہوگی:

مالی سال 2025-26: 9 ارب روپے

2027: 19 ارب روپے

2028: 24 ارب روپے

2029: 26 ارب روپے

2030: 23 ارب روپے

اس مالیاتی حکمتِ عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت طویل المدتی منصوبہ بندی کے ساتھ اس شعبے میں سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔

طویل مدتی اہداف اور فوائد

الیکٹرک وہیکل پالیسی کا سب سے بڑا فائدہ ماحولیاتی آلودگی میں واضح کمی ہے۔ پاکستان، جو گلوبل وارمنگ اور سموگ جیسے خطرناک ماحولیاتی مسائل کا شکار ہے، وہاں صاف ایندھن پر مبنی ٹرانسپورٹ سسٹم کی اشد ضرورت ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں نہ صرف شہریوں کو سستی اور پائیدار سواری ملے گی بلکہ ملک کا درآمدی ایندھن پر انحصار بھی کم ہوگا، جس سے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔

22 لاکھ سے زائد گاڑیوں کا ہدف

پالیسی کے مطابق سال 2030 تک 22 لاکھ 13 ہزار الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے مقامی مینوفیکچرنگ، روزگار کے مواقع، اور ٹیکنالوجی کے فروغ میں تیزی آئے گی۔

پاکستان کی جانب سے ایک مثبت قدم

وفاقی حکومت کی یہ نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی ایک انقلابی قدم ہے جو مستقبل کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف موجودہ دور کی ماحولیاتی اور اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دے گی بلکہ پاکستان کو جدید اور پائیدار ٹرانسپورٹ نظام کی جانب لے جائے گی۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے نافذ ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے ایک ماڈل بن سکتا ہے، جسے دیگر ترقی پذیر ممالک بھی اپنا سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین