امریکہ اور جنوبی کوریا میں 350 ارب ڈالر کاتاریخی تجارتی معاہدہ

سرمایہ کاری انفراسٹرکچر، توانائی، ٹیکنالوجی، گاڑیوں کی تیاری، زرعی اجناس کی خریداری، اور دیگر صنعتی شعبوں میں متوقع ہے

دنیا کی دو بڑی معیشتوں امریکہ اور جنوبی کوریا نے حال ہی میں ایک وسیع البنیاد اور مکمل تجارتی معاہدے کا اعلان کیا ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر نہایت اہم اور تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کا اعلان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ٹروتھ سوشل‘‘ پر ایک تفصیلی بیان کے ذریعے کیا، جس میں انہوں نے جنوبی کوریا کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے کی اہم شقوں، سرمایہ کاری کے حجم اور مستقبل کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی۔

350 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری

اس معاہدے کے تحت جنوبی کوریا آئندہ چند برسوں میں امریکہ میں 350 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ سرمایہ کاری انفراسٹرکچر، توانائی، ٹیکنالوجی، گاڑیوں کی تیاری، زرعی اجناس کی خریداری، اور دیگر صنعتی شعبوں میں متوقع ہے۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو مزید مضبوط بنانا ہے بلکہ امریکی معیشت کو روزگار کے مواقع، برآمدات اور صنعتی ترقی کے میدان میں بھی تقویت دینا ہے۔
صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ اس سرمایہ کاری پر مکمل اختیار اور فیصلوں کا کنٹرول امریکی حکومت کے پاس ہوگا، جو ان کے بقول امریکہ کی خودمختاری اور قومی مفاد کا عکاس ہے۔ اس انتظام سے امریکی انتظامیہ کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اس سرمایہ کاری کو اپنی ترجیحات کے مطابق استعمال کرے اور ملکی صنعت کو مزید ترقی دے۔

توانائی کے شعبے میں 100 ارب ڈالر کی خریداری

اس معاہدے کی ایک اور نمایاں شق یہ ہے کہ جنوبی کوریا امریکہ سے کم از کم 100 ارب ڈالر کی مالیت کی توانائی کی مصنوعات خریدے گا۔ ان مصنوعات میں مائع قدرتی گیس (LNG)، خام تیل، اور دیگر متبادل توانائی کے ذرائع شامل ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف امریکہ کی توانائی کی برآمدات کو بڑھاوا دے گا بلکہ جنوبی کوریا کی توانائی کی ضروریات کے لیے بھی ایک مستحکم سپلائی چین قائم کرے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو توانائی کی پیداوار میں خود کفیل ہو چکے ہیں، اور اب اپنی اضافی پیداوار کو بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جنوبی کوریا جیسے صنعتی ملک کے ساتھ توانائی کی برآمدات میں اضافہ امریکی معیشت کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

جنوبی کوریا کی مارکیٹ امریکی مصنوعات کے لیے کھول دی گئی

معاہدے کے تحت جنوبی کوریا نے اس بات پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ اپنی مارکیٹ کو امریکی مصنوعات کے لیے مکمل طور پر کھول دے گا۔ اس فیصلے سے امریکی گاڑیوں، زرعی اجناس، ادویات، صنعتی پرزہ جات، اور دیگر اشیاء کی جنوبی کوریا میں برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
یہ بات تاریخی اعتبار سے اہم ہے کیونکہ ماضی میں جنوبی کوریا کی مارکیٹ پر سخت حکومتی ضابطے اور درآمدی رکاوٹیں عائد تھیں، جن کی وجہ سے غیر ملکی مصنوعات کی رسائی محدود تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دور میں بارہا اس مسئلے پر جنوبی کوریا کے ساتھ مذاکرات کیے، اور اب یہ معاہدہ ان کوششوں کی کامیابی کا مظہر ہے۔

یکطرفہ ٹیرف نظام پر عالمی ردعمل

ایک متنازع لیکن قابلِ غور شق معاہدے کی وہ شرط ہے جس کے تحت جنوبی کوریا پر 15 فیصد درآمدی ٹیرف عائد کیا جائے گا، جب کہ امریکی مصنوعات کو اس کے بدلے کوئی ٹیرف ادا نہیں کرنا ہوگا۔ اس فیصلے پر عالمی سطح پر مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ اصول عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے "برابری کے اصول” سے متصادم ہے، جب کہ صدر ٹرمپ نے اسے امریکہ کے لیے ایک "فتح” قرار دیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے بقول یہ اقدام امریکی صنعت کو غیر منصفانہ مقابلے سے بچانے اور اپنے ملک کے مفاد میں یکطرفہ رعایت حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا۔ انہوں نے اس پالیسی کو "امریکہ فرسٹ” ایجنڈے کا حصہ قرار دیا، جو ان کی صدارت کے دوران خارجہ اور تجارتی پالیسیوں کی بنیاد رہا ہے۔

کورین صدر کا وائٹ ہاؤس دورہ اور باہمی تعلقات

صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی کوریا کے نو منتخب صدر، لی جے میونگ، دو ہفتوں کے اندر امریکہ کا دورہ کریں گے، جہاں ان کی وائٹ ہاؤس میں باقاعدہ ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات میں نہ صرف معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جائے گی بلکہ آئندہ اقتصادی، عسکری اور سفارتی تعاون کے امکانات پر بھی غور کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے لی جے میونگ کو ان کی حالیہ انتخابی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ان کی قیادت میں جنوبی کوریا ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا۔ انہوں نے کورین تجارتی وفد کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو "باعزت اور نتیجہ خیز” قرار دیا۔

تاریخی سیاق و سباق

امریکہ اور جنوبی کوریا کے تعلقات 1950 کی کورین جنگ کے بعد سے مسلسل گہرے ہوتے گئے ہیں۔ امریکہ نہ صرف جنوبی کوریا کا عسکری اتحادی ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ماضی میں بھی دونوں ممالک نے مختلف تجارتی معاہدے کیے، جیسے کہ 2012 میں نافذ ہونے والا KORUS FTA، لیکن حالیہ معاہدہ وسعت اور اثرات کے لحاظ سے کہیں زیادہ اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے لیے معاشی مفاد کا باعث بنے گا بلکہ چین جیسے عالمی تجارتی حریفوں کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان اقتصادی اتحاد کو بھی مزید مستحکم کرے گا۔

امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان طے پانے والا یہ نیا تجارتی معاہدہ عالمی معاشی منظرنامے میں ایک اہم پیش رفت ہے، جو نہ صرف باہمی تعلقات کو نئی جہت دے گا بلکہ عالمی تجارت کے توازن کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اس معاہدے کو ایک "تاریخی کامیابی” قرار دینا محض سیاسی بیان نہیں بلکہ معاشی پالیسی کی ایک گہری حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہ معاہدہ مستقبل میں عالمی تجارتی تعلقات کی نئی جہتوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین