کشتواڑ، مقبوضہ کشمیر: مقبوضہ کشمیر کے ضلع کشتواڑ کے ایک ہمالیائی گاؤں چسوتی میں شدید بارشوں اور بادل پھٹنے کے نتیجے میں آنے والے طاقتور سیلابی ریلے نے تباہی مچا دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 37 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ رواں ماہ بھارت میں سیلاب سے متعلق دوسرا بڑا مہلک واقعہ ہے، جو خطے کی نازک صورتحال اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔ ریسکیو ٹیمیں تباہ حال علاقے تک پہنچنے کی جدوجہد کر رہی ہیں، جبکہ زخمیوں اور لاپتا افراد کی تلاش جاری ہے۔
سیلاب کی تباہ کاری
شدید مون سون بارشوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے کشتواڑ ضلع میں واقع چسوتی گاؤں کو ایک خوفناک سیلابی ریلے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، یہ تباہی بادل پھٹنے کے نتیجے میں ہوئی، جس نے گاؤں کو پانی اور ملبے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مقامی ہسپتالوں میں زخمیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، جہاں لوگ اپنے پیاروں کو اسٹریچرز پر لے جاتے ہوئے نظر آئے۔
کشتواڑ کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سینئر عہدیدار محمد ارشاد نے بتایا کہ امدادی ٹیموں نے اب تک 37 لاشیں برآمد کی ہیں، لیکن لاپتا افراد کی تعداد کا درست اندازہ لگانا ابھی ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 150 سے زائد زخمیوں کو ریسکیو کیا گیا ہے، جن میں سے 50 کی حالت نازک ہے۔ ان زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں طبی عملہ ان کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
قریبی گاؤں اتھولی کے رہائشی سشیل کمار نے ایک دل دہلا دینے والا بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مقامی ہسپتال میں کم از کم 15 لاشیں دیکھیں، جنہیں سیلاب سے نکال کر لایا گیا تھا۔ ضلعی کمشنر پنکج کمار شرما نے خبردار کیا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے، کیونکہ امدادی ٹیمیں ابھی تک تباہ شدہ علاقوں کے کچھ حصوں تک نہیں پہنچ سکیں۔
یاتریوں کا عارضی باورچی خانہ بہہ گیا
چسوتی گاؤں، جہاں یہ سانحہ پیش آیا، ہندو یاتریوں کے لیے ایک اہم مقام ہے، کیونکہ یہ مچیل ماتا مندر کے راستے پر واقع ہے۔ حکام کے مطابق، سیلاب نے ایک عارضی باورچی خانے کو مکمل طور پر بہا دیا، جہاں 100 سے زائد یاتری موجود تھے۔ یہ یاتری مقامی حکام کے پاس رجسٹرڈ نہیں تھے، جس کی وجہ سے لاپتا افراد کی درست تعداد کا تعین مزید مشکل ہو گیا ہے۔
ریسکیو آپریشنز میں مشکلات
ریسکیو ٹیموں کو تباہ حال علاقے تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے جاری شدید طوفانوں نے سڑکوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، اور چسوتی گاؤں سری نگر سے 200 کلومیٹر سے زائد فاصلے پر واقع ہے، جو امدادی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ فوجی اہلکاروں نے بھی ریسکیو آپریشنز میں حصہ لیا، لیکن دشوار گزار علاقہ اور موسم کی خرابی نے ان کی کوششوں کو محدود کر دیا۔
سرکاری ردعمل اور بیانات
مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، "چسوتی گاؤں میں بادل پھٹنے سے ہونے والی تباہی کی خبر انتہائی رنجیدہ کرنے والی ہے۔” انہوں نے متاثرین کے لیے فوری امداد اور تعاون کا وعدہ کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ایک بیان میں کہا کہ متاثرہ افراد کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی، اور امدادی ٹیمیں دن رات کام کر رہی ہیں۔
مون سون کی تباہ کاریوں کا تسلسل
یہ سانحہ بھارت میں رواں ماہ کا دوسرا بڑا سیلابی واقعہ ہے۔ اس سے قبل 5 اگست کو اتراکھنڈ کے ہمالیائی قصبے دھرالی میں سیلاب نے تباہی مچائی تھی، جس میں ممکنہ طور پر 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مون سون سیزن (جون سے ستمبر) کے دوران بھارت میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات معمول ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص ترقیاتی منصوبہ بندی نے ان کی شدت اور تعدد کو بڑھا دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس سانحے کی خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلی، جہاں صارفین نے متاثرین کے لیے دعائیں اور ہمدردی کے پیغامات شیئر کیے۔ ایک صارف نے لکھا، "کشمیر کے لوگ پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں، اور اب یہ تباہی۔ خدا انہیں صبر دے۔” ایک اور صارف نے موسمیاتی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں ماحولیات کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔”
چسوتی گاؤں میں پیش آنے والا یہ سیلابی سانحہ مقبوضہ کشمیر کی نازک صورتحال کو ایک بار پھر اجاگر کرتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا المیہ ہے بلکہ خطے کے بنیادی ڈھانچے کی کمزوریوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے اثرات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ بادل پھٹنے جیسے غیر معمولی موسمی واقعات، جو حالیہ برسوں میں بڑھ رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہیں۔ ناقص ترقیاتی منصوبوں، جیسے کہ سڑکوں اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ناکافی انتظامات، نے اس تباہی کے اثرات کو مزید بڑھا دیا۔
پاکستان کے تناظر میں، یہ سانحہ ایک اہم سبق دیتا ہے۔ پاکستان بھی مون سون سیلابوں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوتا ہے، جیسا کہ 2022 کے تباہ کن سیلابوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خطے کے ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنے ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کو مضبوط کرنے، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں، اور عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
چسوتی کے یاتریوں کے عارضی باورچی خانے کا مکمل طور پر بہہ جانا اور غیر رجسٹرڈ یاتریوں کی موجودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مقامی حکام کو سیاحتی مقامات پر رجسٹریشن اور حفاظتی انتظامات کو سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، مقبوضہ کشمیر کی سیاسی صورتحال نے بھی امدادی کوششوں کو متاثر کیا ہے، کیونکہ محدود مواصلاتی نظام اور فوجی موجودگی نے ریسکیو آپریشنز کو پیچیدہ بنا دیا۔
یہ سانحہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کو اپنے وسائل کو ماحولیاتی تحفظ، بہتر بنیادی ڈھانچے، اور فوری امدادی نظام پر مرکوز کرنا ہوگا تاکہ ایسی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ چسوتی کے متاثرین کے لیے یہ وقت ہمدردی اور تعاون کا ہے، لیکن یہ ایک عظیم تر مقصد—یعنی ماحولیاتی تحفظ—کے لیے آواز اٹھانے کا بھی وقت ہے۔





















