اسلام آباد: پاکستان کی قومی اسمبلی میں ڈیجیٹل میڈیا پر بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی کے رجحان کو روکنے کے لیے ایک اہم قانون سازی کا آغاز کیا گیا ہے۔ "ڈیجیٹل میڈیا پر فحاشی و عریانی کی امتناع 2025” نامی بل پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی نے ایوان میں پیش کیا ہے۔ اس بل کا مقصد سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی اور نامناسب مواد کی روک تھام کے لیے ایک جامع قانونی فریم ورک تیار کرنا ہے۔ یہ بل قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس غور و خوض کے لیے بھیجا گیا ہے، اور توقع ہے کہ آئندہ اجلاس میں اس کی منظوری دی جائے گی۔
بل کا تعارف اور مقاصد
"ڈیجیٹل میڈیا پر فحاشی و عریانی کی امتناع 2025” نامی یہ بل پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کو تحفظ دینے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر پھیلنے والے غیر اخلاقی مواد کو کنٹرول کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔ شاہدہ رحمانی نے ایوان میں بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں مواصلات اور معلومات کے تبادلے کو آسان بنایا ہے، وہیں اس نے فحاشی، عریانی، اور غیر اخلاقی مواد کے پھیلاؤ کو بھی ہوا دی ہے، جو خاص طور پر نوجوان نسل پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
اس بل کا بنیادی مقصد ڈیجیٹل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد کی نشر و اشاعت کو روکنا، اس کی نگرانی کے لیے ایک موثر نظام قائم کرنا، اور اس طرح کے مواد کو پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کو یقینی بنانا ہے۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ویب سائٹس، اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع پر مواد کی سخت جانچ پڑتال کی جائے، اور غیر قانونی یا غیر اخلاقی مواد کو ہٹانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔
قانون سازی کا پس منظر
پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اور 2025 تک ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 10 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ایکس، ٹک ٹاک، یوٹیوب، اور دیگر پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی مواد کی موجودگی نے والدین، اساتذہ، اور معاشرتی کارکنوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حالیہ برسوں میں، کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد نے معاشرتی اقدار کو چیلنج کیا اور خاص طور پر نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب کیے۔
اس سے قبل، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) نے غیر اخلاقی مواد کو ہٹانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں، لیکن ان کی کامیابی محدود رہی ہے کیونکہ کوئی جامع قانونی فریم ورک موجود نہیں تھا۔ یہ نیا بل اس خلا کو پر کرنے کی کوشش ہے، جس کے تحت ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو اپنے مواد کی نگرانی کے لیے ذمہ دار بنایا جائے گا، اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
بل کی اہم شقیں
اگرچہ بل کی تفصیلات ابھی مکمل طور پر عام نہیں کی گئیں، لیکن ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس میں درج ذیل اہم نکات شامل ہیں:
مواد کی نگرانی: سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں اپنے پلیٹ فارمز پر شائع ہونے والے مواد کی نگرانی کے لیے مقامی قوانین کے مطابق ایک نظام قائم کرنا ہوگا۔
غیر اخلاقی مواد کی تعریف: بل میں فحاشی اور عریانی کی واضح تعریف کی جائے گی تاکہ قانونی عمل میں ابہام سے بچا جا سکے۔
سزائیں اور جرمانے: غیر اخلاقی مواد پھیلانے والوں کے لیے قید اور بھاری جرمانوں کی تجویز ہے، جبکہ پلیٹ فارمز کی ناکامی پر بھی سزائیں عائد کی جائیں گی۔
شکایتی نظام: شہریوں کے لیے ایک آسان شکایتی نظام متعارف کرایا جائے گا، جس کے ذریعے وہ قابل اعتراض مواد کی نشاندہی کر سکیں گے۔
فوری عمل: غیر قانونی مواد کو ہٹانے کے لیے ایک مقررہ وقت کے اندر کارروائی کو یقینی بنایا جائے گا۔
قائمہ کمیٹی کا کردار
بل کو قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا ہے، جہاں اس پر تفصیلی غور و خوض کیا جائے گا۔ کمیٹی اس بل کی شقوں کا جائزہ لے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یہ پاکستانی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہو اور آزادیِ اظہار کے بنیادی حقوق کو غیر ضروری طور پر متاثر نہ کرے۔ توقع ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کے بعد بل کو آئندہ اجلاس میں حتمی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس بل کے قومی اسمبلی میں پیش ہونے کی خبر نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ایکس پر کچھ صارفین نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کو تحفظ دینے کے لیے ضروری ہے۔ ایک صارف نے لکھا، "یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد سے بچائیں۔” تاہم، دیگر صارفین نے اس بل کے ممکنہ منفی اثرات پر خدشات کا اظہار کیا، خاص طور پر آزادیِ اظہار کے حوالے سے۔ ایک صارف نے تبصرہ کیا، "فحاشی کی تعریف کون کرے گا؟ یہ بل سنسرشپ کا ایک نیا ہتھیار بن سکتا ہے۔” یہ بحث اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس حساس موضوع پر منقسم ہے۔
دیگر متعلقہ قانون سازی
یہ بل قومی اسمبلی میں حالیہ دنوں میں پیش کیے گئے دیگر اہم بلوں کے تسلسل میں ہے۔ مثال کے طور پر، تیزاب اور آگ سے جلانے کے جرم سے متعلق بل، زکوٰۃ و عشر ترمیمی بل 2025، اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے جرنلسٹ پروٹیکشن ترمیمی بل بھی ایوان میں پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، خواتین کو غیر منصفانہ طور پر گھر سے بے دخل کرنے کو جرم قرار دینے کا بل بھی شاہدہ رحمانی کی جماعت کی رکن شرمیلا فاروقی نے پیش کیا تھا، جو سماجی اصلاحات کے لیے حکومتی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
"ڈیجیٹل میڈیا پر فحاشی و عریانی کی امتناع 2025” بل پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کو تحفظ دینے اور ڈیجیٹل دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کی ایک اہم کوشش ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں مذہبی اور ثقافتی اقدار کو خاص اہمیت حاصل ہے، اس طرح کے اقدامات عوامی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر والدین اور تعلیمی اداروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش بڑھ رہی ہے، اور یہ بل اس تشویش کا براہ راست جواب ہے۔
تاہم، اس بل کے نفاذ میں کئی چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج فحاشی اور عریانی کی تعریف کو واضح کرنا ہے، کیونکہ اس کی مبہم تشریح آزادیِ اظہار پر قدغن لگا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ صارفین کے خدشات درست ہیں کہ اس بل کو سیاسی یا دیگر مقاصد کے لیے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر فحاشی کی تعریف کو ضرورت سے زیادہ وسیع کیا گیا تو یہ سنسرشپ کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے، جو صحافیوں، فنکاروں، اور عام شہریوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جو زیادہ تر غیر ملکی کمپنیوں کے زیر انتظام ہیں، پر اس بل کے نفاذ کو یقینی بنانا ایک پیچیدہ عمل ہوگا۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ان کمپنیوں کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، جو اکثر اپنے صارفین کی پرائیویسی اور آزادیِ اظہار کے تحفظ کے دعوے کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستانی معاشرے میں تعلیم اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے، اس بل کے فوائد کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک وسیع مہم کی ضرورت ہوگی۔
یہ بل پاکستان کے ڈیجیٹل منظر نامے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار اس کے منصفانہ اور شفاف نفاذ پر ہے۔ اگر یہ بل اپنے مقاصد حاصل کر لیتا ہے، تو یہ نہ صرف پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کو تحفظ دے گا بلکہ ڈیجیٹل دنیا کو ایک محفوظ اور ذمہ دار پلیٹ فارم بنانے میں بھی مدد دے گا۔ تاہم، اسے نافذ کرنے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول سوشل میڈیا کمپنیوں، سول سوسائٹی، اور قانونی ماہرین، کے ساتھ مشاورت ضروری ہے تاکہ آزادیِ اظہار اور معاشرتی اقدار کے درمیان توازن برقرار رکھا جا سکے۔





















