پاکستان عوامی تحریک کا سیلاب سے قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس

منہاج ویلفیئر فائونڈیشن نے متاثرین کو ریسکیو اور ریلیف کی فراہمی عمل شروع کر دیا

لاہور:پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے حالیہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبر پختونخواہ ،آزاد کشمیر،گلگت سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں آنے والے سیلاب سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور ہزاروں خاندانوں کے بے گھر ہونے پر پوری قوم غمزدہ ہے ۔انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ متاثرہ خاندانوں کی فوری بحالی کےلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔

سیلاب سے متاثرہ کسانوں اور مزدور طبقے کےلئے خصوصی مالی امدادی پیکج دیا جائے تا کہ وہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔انہوں نے کہاکہ متاثرہ علاقوں کی بحالی اور حفاظتی اقدامات کو مستقل بنیادوں پر ترجیح دی جائے تا کہ ہر سال عوام کو ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔خرم نواز گنڈاپور نے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن کے دوران گرنے والے ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والے جوانوں کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت اور متاثرہ خاندانوں کی مدد کے مشن پر مامور جوانوں کی شہاد ت پر دلی صدمہ ہوا۔خرم نواز گنڈاپور نے کہاکہ منہاج ویلفیئر فائونڈیشن نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی خصوصی ہدایات پر متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر امدادی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے ۔

منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی ہیں۔امدادی سرگرمیوں کے تحت متاثرین کو ریسکیو اور ریلیف کی فراہمی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔متاثرہ خاندانوں میں خشک راشن،پینے کا صاف پانی اور خیمے تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ منہاج ویلفیئر فائونڈیشن نے عارضی طور پر ریلیف کیمپس بھی قائم کر دئے ہیں جہاں بے گھر ہونے والے افراد کو پناہ،کھانا اور ابتدائی طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔انہون نے کہاکہ امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک متا ثرین اپنے گھروں کو واپس جا کر معمولات زندگی بحال نہیں کر لیتے۔

تجزیہ

روزنامہ تحریک سے وابستہ ایک سینئر صحافی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے، اس بیان میں متاثرہ خاندانوں اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قیادت عوام کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہے اور صرف الفاظ تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہی طرز عمل معاشرے میں یکجہتی اور اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ خرم نواز گنڈاپور نے کسانوں اور مزدور طبقے کے لیے خصوصی مالی امدادی پیکج کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ایک انتہائی مثبت اور حقیقت پسندانہ تجویز ہے کیونکہ قدرتی آفات کے سب سے زیادہ متاثرین یہی طبقے ہوتے ہیں جو روزانہ کی محنت مزدوری یا زمین سے جڑے کام پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ان کے لیے بروقت مالی مدد فراہم کی جائے تو وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں، اور ملکی معیشت پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔

تیسرا اہم پہلو مستقل بنیادوں پر حفاظتی اقدامات کو ترجیح دینے کا مطالبہ ہے۔ پاکستان میں اکثر یہ مسئلہ رہا ہے کہ آفات کے بعد وقتی ریلیف تو فراہم کیا جاتا ہے مگر مستقبل کی منصوبہ بندی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ خرم نواز گنڈاپور کی یہ تجویز دراصل ایک جامع حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو طویل المدتی حل فراہم کر سکتی ہے۔ یہ سوچ آگاہی، ذمہ داری اور بصیرت کی نشاندہی کرتی ہے۔

چوتھا نمایاں پہلو شہید ہونے والے ریسکیو اہلکاروں کے بارے میں خراج عقیدت ہے۔ یہ نقطہ اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں اور اہلکاروں کی قربانیاں بھی نظرانداز نہیں ہونی چاہئیں۔ اس اعتراف سے قوم میں جذبہ ایثار اور قربانی کو سراہنے کی روایت پروان چڑھتی ہے۔

سب سے زیادہ قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی ہدایت پر فوری طور پر امدادی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف بیان بازی نہیں بلکہ عملی خدمت کا جذبہ ہے۔ خشک راشن، پینے کا صاف پانی، خیمے، ریلیف کیمپس، پناہ، کھانا اور ابتدائی طبی امداد جیسی سہولیات کا بروقت فراہم ہونا اس امر کی علامت ہے کہ فلاحی ادارے عوام کی مشکلات کم کرنے میں عملی کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ بھی ایک مثبت پہلو ہے کہ امدادی سرگرمیوں کو اس وقت تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے جب تک متاثرین اپنے گھروں کو واپس جا کر معمولات زندگی بحال نہ کر لیں۔ یہ طویل المدتی وابستگی فلاحی کام کے اصل جذبے کو ظاہر کرتی ہے اور عوام کے دلوں میں اعتماد پیدا کرتی ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔

مجموعی طور پر اس بیان کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اس میں عوامی ہمدردی، فلاحی جذبہ، حقیقت پسندی اور مستقبل کے لیے مثبت سوچ یکجا ہیں۔ اس میں محض وقتی سیاست یا نمائشی رویہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور عملی نقطہ نظر نظر آتا ہے۔ ایسی سوچ اور اقدامات نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے سہارا ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک روشن مثال بھی ہیں۔

کچھ تجاویز کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت اور دیگر فلاحی ادارے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن جیسے اقدامات کو مربوط انداز میں آگے بڑھائیں تو نتائج زیادہ دیرپا اور مؤثر ہوں گے۔ مزید یہ کہ مستقل بنیادوں پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان تیار کر کے مقامی سطح پر کمیونٹی کی تربیت اور سہولتوں کی فراہمی بھی لازمی ہے تاکہ مستقبل میں آفات کا اثر کم سے کم ہو۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین