پاکستانی میزائلوں کی بھارت کے خلاف کامیابی نے امریکا کو نئے میزائل بنانے پر مجبور کر دیا

چینی فضائیہ نے 2023 میں PL-17 میزائل کو فعال کیا، جو PL-15 کا جدید تر ورژن ہے۔

پاکستان فضائیہ کی حالیہ کامیابی نے نہ صرف خطے کی فضائی طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ چین کے تیار کردہ جدید PL-15 میزائل کے ذریعے بھارتی جنگی طیاروں کو 100 میل سے زیادہ فاصلے سے کامیابی سے نشانہ بنانے کی پاکستانی کارروائی نے امریکی فوج کو اپنی فضائی برتری برقرار رکھنے کے لیے نئے اقدامات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف پاکستانی فضائیہ کی صلاحیتوں کا مظہر ہے بلکہ چینی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کی ترقی کو بھی عیاں کرتا ہے۔ یہ رپورٹ اس کامیابی، اس کے اثرات، اور امریکی ردعمل کی تفصیلات پیش کرتی ہے۔

پی ایل-15 کی کامیابی

امریکی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان فضائیہ نے چین کے تیار کردہ PL-15 میزائل کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی جنگی طیاروں کو 100 میل سے زائد فاصلے سے نشانہ بنایا۔ یہ کارروائی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ پاکستانی طیاروں کو جوابی حملوں کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا، جو اس میزائل کی طویل رینج اور درستگی کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ PL-15، جو ایک فعال ریڈار گائیڈڈ، طویل فاصلے تک مار کرنے والا فضائیہ سے فضائیہ (BVRAAM) میزائل ہے، پاکستان کے J-10C اور JF-17 Block III طیاروں پر نصب ہے۔ اس کامیابی نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

چینی ٹیکنالوجی کی ترقی

پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق، چینی فضائیہ نے 2023 میں PL-17 میزائل کو فعال کیا، جو PL-15 کا جدید تر ورژن ہے۔ یہ میزائل 400 کلومیٹر (تقریباً 248 میل) تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو اسے دنیا کے طویل رینج والے فضائیہ سے فضائیہ میزائلوں میں سے ایک بناتا ہے۔ PL-17 کی اس صلاحیت نے مغربی فوجی ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، کیونکہ یہ میزائل اعلیٰ قدر کے اہداف جیسے AWACS اور ٹینکر طیاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے PL-15 کے کامیاب استعمال نے اس بات کی نشاندہی کی کہ چینی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی اب مغربی ممالک کے مقابلے میں کسی سے کم نہیں۔

امریکی ردعمل

پاکستان کی اس کامیابی نے امریکی فضائیہ اور بحریہ کو اپنی فضائی برتری کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔ امریکی فوج نے لاک ہیڈ مارٹن کے خفیہ منصوبے AIM-260 جوائنٹ ایڈوانسڈ ٹیکٹیکل میزائل (JATM) کی ترقی کو تیز کرنے کے لیے مالی سال 2026 کے لیے ایک ارب ڈالر کی فنڈنگ کی درخواست کی ہے۔ اس منصوبے پر اب تک 350 ملین ڈالر سے زائد خرچ ہو چکے ہیں، اور اس کی ترقیاتی ذمہ داری اگست 2017 میں لاک ہیڈ مارٹن کو سونپی گئی تھی۔

اے ای ایم-260 کو خاص طور پر ایف-22 ریپٹر اور ایف-35 لائٹننگ II جیسے پانچویں نسل کے طیاروں کے اندرونی ہتھیاروں کے خانوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مستقبل میں اسے ایف-16، ایف-15، اور ڈرون جنگی طیاروں کے ساتھ بھی مربوط کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ نیا میزائل موجودہ AIM-120 AMRAAM کی جگہ لے گا، جو 1993 سے امریکی فوج کے استعمال میں ہے۔ امریکی فضائیہ کے مطابق، PL-15 کی کامیابی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکی فضائی برتری کو چیلنج کرنے والے خطرات اب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں، اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک جدید اور زیادہ موثر میزائل کی تیاری ناگزیر ہے۔

فنڈنگ اور ترقیاتی منصوبہ

امریکی دستاویزات کے مطابق، امریکی فضائیہ نے AIM-260 کی تیاری کے لیے 368 ملین ڈالر اور اضافی 300 ملین ڈالر کی فنڈنگ کی درخواست کی ہے، جبکہ امریکی بحریہ نے 301 ملین ڈالر مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ فنڈنگ نئے میزائل کی تیزی سے ترقی اور اسے امریکی فضائیہ کے جنگی طیاروں میں شامل کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ AIM-260 کی ترقی کا مقصد نہ صرف چینی اور پاکستانی میزائلوں کے مقابلے میں برتری حاصل کرنا ہے بلکہ مستقبل کے ممکنہ خطرات، جیسے کہ تائیوان کے تنازعے میں چینی فضائیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے نمٹنا بھی ہے۔

خطے میں فضائی طاقت کا نیا توازن

پاکستان کی جانب سے PL-15 کے کامیاب استعمال نے جنوبی ایشیا میں فضائی طاقت کے توازن کو بدل دیا ہے۔ بھارت، جو روایتی طور پر اپنی فضائیہ کی عددی اور تکنیکی برتری پر انحصار کرتا تھا، اب اس نئی حقیقت سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کر رہا ہے۔ پاکستانی فضائیہ کی J-10C اور JF-17 طیاروں کی صلاحیتوں، خاص طور پر PL-15 کے ساتھ، نے بھارتی فضائیہ کے جدید طیاروں جیسے رافیل اور سو-30 MKI کو چیلنج کیا ہے۔ اس کامیابی نے نہ صرف پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو تقویت دی بلکہ چین کی عسکری ٹیکنالوجی کو عالمی سطح پر ایک نئی شناخت بھی دی۔

پس منظر

پاکستان نے 2021 میں چین سے 1.5 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کے تحت 20 J-10CE طیاروں اور تقریباً 240 PL-15E میزائلوں کا حصول کیا تھا، جس سے وہ PL-15E کا پہلا بین الاقوامی خریدار بنا۔ یہ میزائل، جو PL-15 کا ایکسپورٹ ورژن ہے، 145 کلومیٹر کی رینج رکھتا ہے، جبکہ چینی فضائیہ کے لیے تیار کردہ PL-15 کی رینج 200 سے 300 کلومیٹر ہے۔ PL-15 ایک فعال الیکٹرانک اسکینڈ ایری (AESA) ریڈار اور دو طرفہ ڈیٹا لنک سے لیس ہے، جو اسے انتہائی درستگی اور الیکٹرانک جیمنگ کے خلاف مزاحمت فراہم کرتا ہے۔ اس کے دوہرے پلس راکٹ موٹر کی بدولت یہ Mach 5 سے زائد رفتار سے اہداف کو نشانہ بناتا ہے۔

بھارت کے خلاف اس میزائل کے کامیاب استعمال نے عالمی فوجی ماہرین کی توجہ حاصل کی ہے۔ بھارتی فضائیہ، جو 36 رافیل طیاروں اور میٹیور میزائلوں پر انحصار کرتی ہے، کو اب اپنی فضائی دفاعی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا پڑ رہی ہے۔ میٹیور میزائل، جو ریم جیٹ پروپلشن سے لیس ہے، اپنی طویل رینج اور بڑی "نو ایسکپ زون” کی بدولت ایک طاقتور ہتھیار ہے، لیکن PL-15 کی حالیہ کامیابی نے اس کی برتری پر سوالات اٹھائے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے PL-15 میزائل کے کامیاب استعمال نے نہ صرف خطے میں فضائی طاقت کے توازن کو بدلا ہے بلکہ عالمی سطح پر چینی عسکری ٹیکنالوجی کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چین اب فضائیہ سے فضائیہ ہتھیاروں کے شعبے میں مغربی ممالک کے مقابلے میں ایک مضبوط حریف کے طور پر ابھر رہا ہے۔ PL-15 کی کامیابی نے پاکستانی فضائیہ کی صلاحیتوں کو تقویت دی ہے اور بھارت کے لیے ایک نئی اسٹریٹجک چیلنج پیش کیا ہے۔

امریکا کا AIM-260 پروگرام پر کام تیز کرنے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغربی ممالک اب چینی ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ تاہم، اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار نہ صرف فنڈنگ بلکہ تکنیکی ترقی اور اسے تیزی سے عملی جامہ پہنانے پر ہے۔ AIM-260 کی ترقی کے لیے مختص کردہ فنڈنگ اور اس کا پانچویں نسل کے طیاروں کے ساتھ انضمام امریکی فضائی برتری کو بحال کرنے کی کوشش ہے، لیکن اس عمل میں وقت اور وسائل کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب، پاکستان کی اس کامیابی نے خطے میں اس کی دفاعی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ PL-15 کی کامیابی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اب اپنے محدود وسائل کے باوجود جدید ٹیکنالوجی اور اسٹریٹجک شراکت داریوں کے ذریعے بھارت جیسے بڑے حریف کے مقابلے میں موثر حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔ تاہم، اس کامیابی کے باوجود، پاکستان کو اپنی فضائیہ کی مجموعی صلاحیتوں کو بڑھانے اور دیگر شعبوں، جیسے کہ الیکٹرانک وارفیئر اور AEW&C سسٹمز، میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹ سکے۔

بھارت کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی فضائی دفاعی حکمت عملی پر نظرثانی کرے اور اپنی جدید طیاروں کی صلاحیتوں کو PL-15 جیسے میزائلوں کے مقابلے میں بہتر بنائے۔ اس کے علاوہ، عالمی برادری کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے جدید ہتھیاروں کی ایکسپورٹ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو مزید تیز کر سکتی ہے، جو جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ عالمی فضائی جنگ کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ چینی ٹیکنالوجی کی ترقی اور پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں نے مغربی ممالک کو اپنی دفاعی حکمت عملیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی اپنی فضائی برتری برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تو انہیں نہ صرف جدید ہتھیاروں کی تیاری بلکہ اسٹریٹجک شراکت داریوں اور تربیت پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ پاکستان کی اس کامیابی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور درست حکمت عملی کسی بھی ملک کو فضائی جنگ میں غیر معمولی برتری دلا سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین