معروف یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کی غیر قانونی بیٹنگ ایپس کی تشہیر کے الزام میں گرفتاری نے سوشل میڈیا کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس تنازع کے درمیان، ان کے سابق دوست اور مشہور وی لاگر رجب بٹ نے ڈکی بھائی کی گرفتاری پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ رجب بٹ نے قانون کی عملداری پر سوالات اٹھاتے ہوئے اسے یکساں طور پر نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور ڈکی بھائی کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
بیٹنگ ایپس کی تشہیر کا الزام
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) نے 17 اگست 2025 کو لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ڈکی بھائی کو گرفتار کیا۔ حکام کے مطابق، ڈکی بھائی نے اپنے یوٹیوب چینل اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر قانونی بیٹنگ ایپس جیسے کہ 1Xbet اور Binimi کی تشہیر کی، جو پاکستان میں جوئے کو فروغ دینے کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایجنسی نے ان کے قبضے سے ایک موبائل فون برآمد کیا، جسے تفتیش کے لیے تحویل میں لے لیا گیا۔ ڈکی بھائی کے خلاف ایف آئی آر نمبر 196/25 درج کی گئی، جس میں پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2025 کی دفعات 13، 14، 25، 26 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 294-B اور 420 شامل ہیں۔ عدالت نے انہیں دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا، اور تفتیش ابھی جاری ہے۔
رجب بٹ کا ردعمل
رجب بٹ، جو خود بھی متعدد تنازعات کا شکار رہے ہیں، نے ڈکی بھائی کی گرفتاری پر اپنا موقف واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈکی بھائی کے خلاف کارروائی کی وجوہات موجود ہیں، لیکن قانون کو سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ رجب نے سوال اٹھایا کہ جب پاکستان سپر لیگ (PSL) کے کھلاڑی بیٹنگ ایپس کے لوگو والی جرسیاں پہن کر قومی ٹیلی ویژن پر کھیلتے ہیں اور ان ایپس کے اشتہارات نشر ہوتے ہیں، تو ایجنسیاں ان "بڑی مچھلیوں” کو کیوں نظر انداز کرتی ہیں؟ انہوں نے الزام لگایا کہ حکام شاید انفلوئنسرز کو اس لیے نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ انہیں گرفتار کرنا آسان ہے۔ رجب نے ڈکی بھائی اور ان کے خاندان کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔
ڈکی بھائی کا پس منظر
ڈکی بھائی، جن کے یوٹیوب پر 8 ملین سے زائد سبسکرائبرز ہیں، حالیہ برسوں میں کئی تنازعات کا حصہ رہے ہیں۔ ان کے سابق دوستوں، بشمول رجب بٹ، ندیم نانی والا، اور شام ادریس کے ساتھ تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔ فروری 2025 میں، ڈکی بھائی نے ایک پوڈکاسٹ میں انکشاف کیا تھا کہ رجب بٹ نے طلحہ ریویوز تنازع کے دوران ان کا مذاق اڑایا، جس سے ان کے تعلقات میں دراڑ پڑ گئی۔ اس کے علاوہ، شام ادریس نے الزام لگایا کہ ڈکی بھائی چھوٹے یوٹیوبرز کو دھمکاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے سبسکرائبرز کی تعداد میں چار لاکھ کی کمی ہوئی۔ ان تنازعات نے ڈکی بھائی کو سوشل میڈیا پر تنہائی کا شکار کر دیا ہے، اور رجب بٹ کا حالیہ بیان اس تناظر میں ایک غیر متوقع حمایت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
بیٹنگ ایپس کیس
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد سرفراز چوہدری نے بتایا کہ ڈکی بھائی ایک پروموشنل ویڈیو کے لیے 10 سے 20 ہزار ڈالر وصول کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایپس، جن کا مرکز مبینہ طور پر بھارت ہے، 6 سے 16 سال کے بچوں کو جوئے کی لت میں مبتلا کر رہی ہیں، جو ان کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ ایجنسی نے 46 غیر قانونی ایپس کی فہرست جاری کی ہے، جن میں 1Xbet، Bet365، Dafabet، اور Pari Match شامل ہیں، اور انہیں بلاک کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ حکام نے خبردار کیا کہ دیگر یوٹیوبرز اور انفلوئنسرز کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے، اور اس کیس میں کل 6 افراد ملوث ہیں، جن میں کچھ خواتین بھی شامل ہیں۔
رجب بٹ کا اپنا تنازعاتی ماضی
رجب بٹ خود بھی قانون کی گرفت سے محفوظ نہیں رہے۔ دسمبر 2024 میں، انہیں لاہور پولیس نے غیر قانونی طور پر شیر کا بچہ اور بغیر license کی کلاشنکوف رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان کے قریبی دوست ملک زمان نصیب نے دعویٰ کیا کہ یہ گرفتاری ایک قریبی شخص کی مخبری کی وجہ سے ہوئی۔ بعدازاں، رجب کو 50 ہزار روپے جرمانے اور ایک سال کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی۔ مزید برآں، ان پر توہین مذہب، تشدد، اور نازیبا ویڈیوز کے لیک ہونے کے الزامات بھی عائد ہو چکے ہیں، جنہوں نے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ اس تناظر میں، رجب کا ڈکی بھائی کی حمایت میں بیان دینا ان کی اپنی مشکلات کے باوجود ایک اہم قدم ہے۔
پس منظر
پاکستان میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ، ان کے اعمال پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر بھی تیز ہو گئی ہے۔ بیٹنگ ایپس کی تشہیر کا معاملہ حالیہ برسوں میں ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے، کیونکہ یہ ایپس نہ صرف جوئے کو فروغ دیتی ہیں بلکہ صارفین کی ذاتی معلومات کے غلط استعمال کا باعث بھی بنتی ہیں۔ NCCIA نے اسے ایک منظم جرائم کے طور پر شناخت کیا ہے، جس کا مبینہ مرکز بھارت ہے۔ ڈکی بھائی کی گرفتاری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، اور حکام نے دیگر انفلوئنسرز کے خلاف بھی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری جانب، رجب بٹ اور ڈکی بھائی کے درمیان ماضی کے تنازعات نے اس کیس کو سوشل میڈیا پر ایک گرم موضوع بنا دیا ہے۔
رجب بٹ کا ڈکی بھائی کی گرفتاری پر ردعمل ایک دوہرے پیغام کا حامل ہے۔ ایک طرف، وہ قانون کی یکساں عملداری پر زور دیتے ہیں اور حکام سے سوال کرتے ہیں کہ وہ بڑے اداروں اور کھلاڑیوں کو نظر انداز کیوں کرتے ہیں۔ یہ ایک جائز نکتہ ہے، کیونکہ PSL جیسے بڑے پلیٹ فارمز پر بیٹنگ ایپس کے اشتہارات کی موجودگی کوئی راز نہیں۔ اگر حکام صرف انفلوئنسرز کو نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ ان تک رسائی آسان ہے، تو یہ قانون کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتا ہے۔ دوسری طرف، رجب کا ڈکی بھائی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ان کے ماضی کے تنازعات کے تناظر میں غیر متوقع ہے، جو شاید ان کی اپنی قانونی مشکلات سے ہمدردی کا نتیجہ ہو۔
تاہم، یہ کیس پاکستان میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ڈکی بھائی کی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکام غیر قانونی سرگرمیوں، خاص طور پر جوئے کی تشہیر کے خلاف سنجیدہ ہیں۔ لیکن رجب بٹ کا نکتہ بھی قابل غور ہے کہ قانون کو سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ اگر بڑے کھلاڑیوں اور اداروں کو استثنیٰ دیا جاتا ہے، تو یہ کارروائیاں صرف چھوٹے کرداروں کو نشانہ بنانے تک محدود ہو کر اپنی ساکھ کھو دیں گی۔
اس کے علاوہ، ڈکی بھائی کی تنہائی اور ان کے سابق دوستوں سے دوری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سوشل میڈیا کی شہرت عارضی ہو سکتی ہے۔ انفلوئنسرز کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہوگا کہ ان کے مواد کا معاشرے، خاص طور پر نوجوانوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ بیٹنگ ایپس کی تشہیر جیسے اقدامات نہ صرف قانونی مسائل بلکہ اخلاقی سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔ رجب بٹ کا بیان اس تنازع کو ایک وسیع تر بحث کی طرف لے جاتا ہے کہ کیا حکام غیر قانونی سرگرمیوں کے اصل ذرائع کو نشانہ بنا رہے ہیں یا صرف نمایاں شخصیات کو عبرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ کیس پاکستان میں سوشل میڈیا کے مستقبل کے لیے ایک اہم موڑ ہو سکتا ہے۔ اگر حکام اسے شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے نمٹائیں، تو یہ انفلوئنسرز کے لیے ایک واضح پیغام ہوگا کہ وہ اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہیں۔ لیکن اگر کارروائیاں انتخابی یا محدود رہتی ہیں، تو یہ عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ رجب بٹ کا بیان اس بحث کو مزید آگے بڑھاتا ہے کہ قانون کی عملداری نہ صرف سخت بلکہ منصفانہ بھی ہونی چاہیے۔





















