بالی ووڈ نے ایک بار پھر پاکستانی گانا کاپی کرلیا

’پرم سندری‘، جو 29 اگست 2025 کو ریلیز ہونے والی ہے، ایک رومانوی کامیڈی فلم ہے

بالی ووڈ کی فلم انڈسٹری ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہے، کیونکہ اس نے پاکستانی موسیقی کے ایک اور جوہر کو بغیر اجازت اپنی فلم میں شامل کر لیا ہے۔ جھانوی کپور اور سدھارتھ ملہوترا کی آنے والی فلم ’پرم سندری‘ کے گانے ’ڈینجر‘ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ یہ پاکستانی ڈرامہ سیریل ’منت مراد‘ کے مشہور ٹائٹل ٹریک ’لال سوٹ‘ کی کاپی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ گانا تنازع کا باعث بن گیا ہے، جہاں پاکستانی اور بھارتی صارفین نے بالی ووڈ پر پاکستانی موسیقی چرانے کی عادت پر شدید تنقید کی ہے۔

’ڈینجر‘ اور ’لال سوٹ‘

21 اگست 2025 کو ریلیز ہونے والا فلم ’پرم سندری‘ کا گانا ’ڈینجر‘، جسے مشہور موسیقار جوڑی سچن-جگر نے کمپوز کیا اور وشال ددلانی، پرورتی میناکشی، اور سچن-جگر نے گایا، ریلیز ہوتے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ تاہم، اس کی وجہ اس کی مقبولیت سے زیادہ پاکستانی ڈرامہ ’منت مراد‘ کے گانے ’لال سوٹ‘ سے اس کی حیران کن مماثلت ہے۔ ’منت مراد‘ کا یہ ٹائٹل ٹریک، جو 2023 میں جیو ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے کا حصہ تھا، اپنی دھن، دھوپ اور شادی کی تقریبات کے منظرناموں کے باعث پاکستانی ناظرین میں بے حد مقبول ہوا تھا۔ اس ڈرامے میں اداکارہ اقرا عزیز، طلحہ چہور، اور رابعہ کلثوم کی پرفارمنس نے اس گانے کو شادی کے مواقع پر ایک پسندیدہ انتخاب بنا دیا تھا۔

’ڈینجر‘ کی ریلیز کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے اس کی دھن اور کوریوگرافی کو ’لال سوٹ‘ سے ملایا۔ صارفین نے ویڈیو کلپس کے موازنہ کے ذریعے دکھایا کہ ’ڈینجر‘ کا کورس اور دھن ’لال سوٹ‘ سے نہ صرف مشابہت رکھتے ہیں بلکہ اس کی کوریوگرافی بھی پاکستانی گانے سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔ ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’بالی ووڈ نے لال سوٹ کو لال ساڑھی بنا کر پیش کر دیا، لیکن یہ سراسر نقل ہے۔‘ دوسرے صارف نے طنز کیا کہ ’پہلے بالی ووڈ ہمارے مشہور گانوں کو چراتا تھا، اب ہمارے ڈراموں کے او ایس ٹی تک نہیں چھوڑ رہا۔‘ یہ تنقید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس، انسٹاگرام، اور ریڈٹ پر تیزی سے پھیل گئی، جہاں ہزاروں صارفین نے اسے بالی ووڈ کی ’کاپی کلچر‘ کی ایک اور مثال قرار دیا۔

بالی ووڈ کی ’چوری کی عادت

بالی ووڈ پر پاکستانی موسیقی چرانے کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی فلم انڈسٹری پاکستانی گلوکاروں اور موسیقاروں کی دھنوں کو بغیر اجازت یا کریڈٹ کے استعمال کرتی رہی ہے۔ مشہور پاکستانی گلوکاروں جیسے نصرت فتح علی خان، جنید جمشید، عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی، وڑائچ، ہدیقہ کیانی، اور سجاد علی کے متعدد گانوں کو بالی ووڈ نے اپنی فلموں میں شامل کیا، جن سے کروڑوں روپے کی کمائی کی گئی۔ مثال کے طور پر، نصرت فتح علی خان کا گانا ’غم ہے یا خوشی ہے تو‘ 2021 کی فلم ’ستیہ میو جیتے‘ میں بغیر کریڈٹ کے استعمال ہوا، جبکہ ہدیقہ کیانی کا ’بوہے باریاں‘ 2019 میں درشن راول کے گانے ’ہوا بنکے‘ کی صورت میں نقل کیا گیا۔ اسی طرح، جنید جمشید کا ’دل دل پاکستان‘ 1990 کی بھارتی فلم ’یادوں کے موسم‘ میں ’دل دل ہندوستان‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔

پاکستان کے ایک میوزک بلاگر نے حال ہی میں ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں کم از کم 42 پاکستانی گانوں کی فہرست دی گئی جو بالی ووڈ نے نقل کیے۔ اس فہرست میں نازیہ حسن کا ’ڈسکو دیوانے‘، شہزاد رائے کا ’سالی تو منجے میری‘، اور عبرار الحق کا ’ناچ پنجابن‘ جیسے گانے شامل ہیں، جنہیں بالی ووڈ نے اپنی فلموں میں مختلف ناموں سے شامل کیا۔ یہ رجحان نہ صرف پاکستانی موسیقی تک محدود ہے بلکہ ہالی ووڈ، ترکی، اور حتیٰ کہ بھارتی کلاسیکی موسیقی سے بھی دھنیں چرانے کی مثالیں موجود ہیں۔ تاہم، پاکستانی موسیقی کے ساتھ یہ رویہ خاص طور پر نمایاں ہے، کیونکہ بھارتی فلم ساز اکثر کریڈٹ دینے یا اجازت لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔

’پرم سندری‘ اور تنازع کی شدت

’پرم سندری‘، جو 29 اگست 2025 کو ریلیز ہونے والی ہے، ایک رومانوی کامیڈی فلم ہے جس کی کہانی شمالی بھارت کے ایک لڑکے (سدھارتھ ملہوترا) اور جنوبی بھارت کی ایک لڑکی (جھانوی کپور) کے گرد گھومتی ہے۔ فلم کے گانوں کی ریلیز سے پہلے ہی اس کی موسیقی تنقید کی زد میں آ چکی تھی، جب اس کا پہلا گانا ’پردیسیا‘ 1995 کی فلم ’بمبئی‘ کے گانوں ’کہنا ہی کیا‘ اور ’یہ حسیں وادیاں‘ سے مشابہت کی وجہ سے تنازع کا شکار ہوا۔ اب ’ڈینجر‘ کے تنازع نے فلم کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔

سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے بالی ووڈ کی اس حرکت کو ’غیر اخلاقی‘ اور ’فکری دیوالیہ پن‘ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’بالی ووڈ یا تو ہمارے گانوں کو چراتا ہے یا ہمارے فنکاروں پر پابندی لگاتا ہے۔ یہ دوغلا پن کب تک چلے گا؟‘ دوسرے نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’لال سوٹ کو لال ساڑھی بنانے میں بالی ووڈ نے کون سی ایجاد کر لی؟ پورا گانا ہی چوری کیا گیا ہے۔‘ بھارتی صارفین نے بھی اس تنقید میں حصہ لیا، جہاں کچھ نے اسے شرمناک قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے ’راگ پر مبنی مماثلت‘ قرار دے کر دفاع کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، ’ڈینجر‘ اور ’لال سوٹ‘ کے درمیان واضح مماثلت نے اس دلیل کو کمزور کر دیا ہے۔

’پرم سندری‘ کے میکرز، جن میں پروڈیوسر دنیش ویجان اور ڈائریکٹر توشار جالوٹا شامل ہیں، نے اب تک اس تنازع پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ سچن-جگر، جنہوں نے اس گانے کی موسیقی ترتیب دی، نے بھی خاموشی اختیار کی ہے۔ اس خاموشی نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کو مزید بھڑکایا ہے، کیونکہ صارفین کا مطالبہ ہے کہ یا تو پاکستانی گانے کے اصل کمپوزر کو کریڈٹ دیا جائے یا اس چوری کا اعتراف کیا جائے۔

’منت مراد‘ اور ’لال سوٹ‘ کی مقبولیت

پاکستانی ڈرامہ ’منت مراد‘، جو جیو ٹی وی پر 2023 میں نشر ہوا، اپنی دلچسپ کہانی اور شاندار موسیقی کی بدولت ناظرین میں بے حد مقبول ہوا۔ اس ڈرامے کی کاسٹ میں اقرا عزیز اور طلحہ چہور کے علاوہ دیگر معروف اداکار شامل تھے، اور اس کا ٹائٹل ٹریک ’لال سوٹ‘ شادی کی تقریبات کے مناظر میں اپنی پرکشش دھن اور دھوپ کی وجہ سے مشہور ہوا۔ یہ گانا پاکستانی ڈراموں کے اصل ساؤنڈ ٹریک (OST) کی ایک بہترین مثال تھا، جو نہ صرف ڈرامے کی کہانی کو تقویت دیتا تھا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوا۔ اس کی مقبولیت نے پاکستانی موسیقی کی عالمی سطح پر پذیرائی کو مزید تقویت دی، لیکن بالی ووڈ کی جانب سے اس کی نقل نے پاکستانی فنکاروں کے لیے ایک بار پھر مایوسی پیدا کی ہے۔

بالی ووڈ کی تنقید اور پاکستانی ردعمل

سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے بالی ووڈ کی اس حرکت کو پاکستانی فن کی بے توقیری قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’ہمارے گانوں کی نقل کرکے بالی ووڈ کروڑوں کماتا ہے، لیکن ہمارے فنکاروں کو نہ کریڈٹ ملتا ہے نہ معاوضہ۔‘ ایک اور صارف نے کہا کہ ’اگر بالی ووڈ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ تعاون کرے اور انہیں کریڈٹ دے تو دونوں ممالک کی انڈسٹری کے لیے فائدہ ہوگا، لیکن چوری سے صرف نفرت بڑھتی ہے۔‘

یہ تنازع صرف ’ڈینجر‘ تک محدود نہیں ہے۔ ’پرم سندری‘ کو پہلے ہی جھانوی کپور کے کردار پر تنقید کا سامنا ہے، کیونکہ کیرالہ کے ناظرین نے ان کے لہجے اور ثقافتی نمائندگی کو غیر مستند قرار دیا۔ جھانوی نے وضاحت کی کہ ان کا کردار ’نصف تامل اور نصف مالایالی‘ ہے، لیکن یہ وضاحت تنقید کو کم کرنے میں ناکام رہی۔ اب ’ڈینجر‘ کے تنازع نے فلم کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے، اور کچھ پاکستانی صارفین نے اس فلم کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

بالی ووڈ کی نقل کی تاریخ

بالی ووڈ کی تاریخ پاکستانی موسیقی سے نقل کی متعدد مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ 2018 میں انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ بالی ووڈ نے پاکستانی گانوں سے ’بے شرمی سے نقل‘ کیا ہے، جن میں ’آہون آہون‘ (لو آج کل، 2009)، ’سوگ سی سوگت‘ (ٹائیگر زندہ ہے، 2017)، اور دیگر شامل ہیں۔ اسی طرح، 2023 میں پاکستانی ڈرامہ ’تیرے بن‘ پر بھارتی فلم ’شادی میں ضرور آنا‘ کے گانے ’ٹھکرا کے میرا پیار‘ کی نقل کا الزام لگا، جس کے بعد ڈرامے کے میکرز نے اپنا ٹائٹل ٹریک تبدیل کر دیا۔ یہ واقعات دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلے کے فقدان اور فکری چوری کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔

بالی ووڈ کی اس عادت نے پاکستانی فنکاروں اور ناظرین میں مایوسی کو جنم دیا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی جاتی۔ پاکستانی موسیقی کی عالمی سطح پر پذیرائی، خصوصاً نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی خان، اور عاطف اسلم جیسے گلوکاروں کی بدولت، بڑھ رہی ہے، لیکن بالی ووڈ کا یہ رویہ اس پذیرائی کو نقصان پہنچاتا ہے۔

’پرم سندری‘ کے گانے ’ڈینجر‘ سے متعلق تنازع بالی ووڈ کی تخلیقی کمزوری اور پاکستانی موسیقی پر انحصار کو ایک بار پھر عیاں کرتا ہے۔ ’لال سوٹ‘ سے واضح مماثلت نے نہ صرف پاکستانی ناظرین بلکہ بھارتی شائقین میں بھی غم و غصہ پیدا کیا ہے، جو بالی ووڈ سے اصل مواد کے خواہشمند ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بالی ووڈ کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر سرمایہ کاری کرنے اور نئے خیالات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، بجائے اس کے کہ دوسرے ممالک کی موسیقی کو چوری کیا جائے۔

فلم کے میکرز کی خاموشی اس تنازع کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ اگر وہ ’لال سوٹ‘ کے اصل کمپوزر کو کریڈٹ دیتے یا اس سے اجازت لیتے، تو یہ تنازع شاید اتنا شدید نہ ہوتا۔ اس کے برعکس، ان کی خاموشی نے پاکستانی ناظرین کے جذبات کو مزید بھڑکایا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ ان کے فن کی بے توقیری کی جا رہی ہے۔ یہ تنازع دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعاون کے فقدان کو بھی ظاہر کرتا ہے، جو دونوں انڈسٹریز کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

مزید برآں، ’پرم سندری‘ پہلے ہی اپنے کرداروں کی نمائندگی کے حوالے سے تنقید کی زد میں ہے، اور اب یہ گانے کا تنازع فلم کی ریلیز سے پہلے اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بالی ووڈ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں، جہاں ویڈیو موازنہ اور معلومات چند سیکنڈوں میں وائرل ہو جاتی ہیں، ایسی چوری کو چھپانا ناممکن ہے۔ پاکستانی موسیقی کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مقبولیت نے بھی اس تنازع کو زیادہ نمایاں کیا ہے، کیونکہ پاکستانی ناظرین اب اپنے فن کی حفاظت کے لیے زیادہ آواز اٹھا رہے ہیں۔

اس تنازع سے بچنے کے لیے بالی ووڈ کو پاکستانی فنکاروں کے ساتھ باقاعدہ تعاون، کریڈٹ دینے، اور اجازت لینے کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی رابطے بہتر ہوں گے بلکہ بالی ووڈ کی ساکھ کو بھی بحال کرنے میں مدد ملے گی، جو مسلسل نقل کے الزامات کی وجہ سے داغدار ہو رہی ہے۔ اگر بالی ووڈ اس موقع پر اپنی غلطی تسلیم کر کے اصل کمپوزر کو کریڈٹ دیتا ہے، تو یہ ایک مثبت قدم ہوگا۔ بصورت دیگر، یہ تنازع فلم کی ریلیز اور اس کی کمرشل کامیابی پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

آخر میں، یہ واقعہ پاکستانی موسیقی کی طاقت اور اس کی عالمی اپیل کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ ’لال سوٹ‘ جیسے گانوں کی مقبولیت نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی تخلیقی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر روشن کیا ہے، اور یہ وقت ہے کہ بالی ووڈ اس کی قدر کرے اور چوری کے بجائے تعاون کو ترجیح دے۔ یہ تنازع نہ صرف بالی ووڈ کے لیے ایک سبق ہے بلکہ پاکستانی فنکاروں کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کریں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین