دریائے ستلج میں خطرناک سیلاب کا خدشہ، پنجاب میں ہلاکتیں 46 تک پہنچ گئیں، 37 لاکھ افراد متاثر

خانیوال کے 136 اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے 75 دیہات بری طرح متاثر ہوئے ہیں

پنجاب میں مون سون کی ریکارڈ توڑ بارشوں اور بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی کے اخراج نے ایک تباہ کن سیلابی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ دریائے ستلج، راوی، اور چناب میں پانی کی غیر معمولی بلند سطح نے 3,900 سے زائد دیہات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جبکہ 46 افراد جاں بحق اور 37 لاکھ سے زائد شہری متاثر ہو چکے ہیں۔ گجرات، سیالکوٹ، خانیوال، اور ملتان جیسے اضلاع شدید سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں، جہاں گھر، فصلیں، اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ ضلعی اور صوبائی انتظامیہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے، لیکن شہریوں کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔

پنجاب میں سیلابی بحران کی شدت

پنجاب کے متعدد اضلاع، خاص طور پر گجرات، خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، اور ملتان، اس وقت شدید سیلابی صورتحال سے دوچار ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے جاری مون سون کی موسلادھار بارشوں اور بھارت کی جانب سے دریائے ستلج، راوی، اور چناب میں پانی کے اخراج نے حالات کو ناقابل کنٹرول بنا دیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق، دریائے ستلج میں ہریکے اور فیروز پور کے مقامات پر پانی کی سطح انتہائی بلند ہو چکی ہے، جس سے پاکستان کی جانب آنے والے پانی میں شدید سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ سیلاب نے اب تک 46 افراد کی جان لے لی ہے، جبکہ 37 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خانیوال کے 136 اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے 75 دیہات بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جبکہ صوبے بھر میں 3,900 سے زائد موضع جات پانی کی نذر ہو چکے ہیں۔ دریائے چناب میں مرالہ، خانکی، اور قادر آباد ہیڈ ورکس پر پانی کا بہاؤ غیر معمولی طور پر بلند ہے، جبکہ دریائے راوی میں جسر، شاہدرہ، اور سدھنائی کے مقامات پر بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

دریاؤں کی موجودہ صورتحال

پی ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق، دریائے چناب میں مرالہ ہیڈ ورکس پر پانی کا بہاؤ 247,000 کیوسک، خانکی ہیڈ ورکس پر 526,000 کیوسک، قادر آباد پر 530,000 کیوسک، چنیوٹ پل پر 494,000 کیوسک، اور تریموں ہیڈ ورکس پر 253,000 کیوسک تک پہنچ گیا ہے۔ دریائے راوی میں جسر پر 82,000 کیوسک، سائفن پر 98,000 کیوسک، اور شاہدرہ پر 97,400 کیوسک کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ بلوکی ہیڈ ورکس پر 121,600 کیوسک اور سدھنائی پر 139,999 کیوسک تک پانی کی سطح ہے۔

دریائے ستلج کی صورتحال سب سے زیادہ تشویشناک ہے، جہاں جی ایس والا پر 319,295 کیوسک، سلیمانکی ہیڈ ورکس پر 132,492 کیوسک، اسلام ہیڈ ورکس پر 95,727 کیوسک، اور پنجند ہیڈ ورکس پر 169,032 کیوسک کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا۔ وزارت آبی وسائل نے خبردار کیا ہے کہ اگلے 72 گھنٹوں میں بھارتی ڈیمز، خاص طور پر تھین ڈیم، مکمل طور پر بھر چکے ہیں، جس سے دریائے ستلج میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

دریائے راوی میں پانی کا بہاؤ چناب میں ملنے کے بجائے واپس آ رہا ہے، جس کی وجہ سے سدھنائی اور احمد پور سیال میں پانی کی سطح کم نہیں ہو رہی۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ ہیڈ محمد والا میں پانی کی گنجائش 4 سے 5 فٹ ہے، جبکہ ملتان کے شیر شاہ پل پر پانی کا شدید دباؤ ہے، اور صرف 2 فٹ کا مارجن باقی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ملتان میں بریچنگ کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جا چکے ہیں، اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے خود صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔

امدادی سرگرمیاں اور چیلنجز

پی ڈی ایم اے نے صوبے بھر میں 409 ریلیف کیمپس قائم کیے ہیں، جہاں 25,000 سے زائد افراد کو پناہ دی گئی ہے۔ ان کیمپوں میں خوراک، پینے کا پانی، اور طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اب تک 14 لاکھ سے زائد افراد اور 10 لاکھ جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ پاک فوج، ریسکیو 1122، اور سول ڈیفنس کے اہلکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، لیکن پانی کی بلند سطح اور مسلسل بارشوں نے ان کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں تین وارننگز موصول ہوئیں، اور دریائے چناب میں رات کے وقت سیلابی صورتحال نے ایک بڑا چیلنج پیش کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگلے دو سے تین ہفتوں تک دریائے راوی میں پانی کی سطح بلند رہے گی، اور پہلے سے متاثرہ اضلاع کو دوبارہ سیلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ناقص نکاسی آب کے نظام اور برساتی نالوں کی عدم صفائی نے شہری سیلاب کو مزید سنگین کر دیا ہے، جیسا کہ گجرات میں 577 ملی میٹر بارش نے شہر کو مکمل طور پر ڈبو دیا۔

بھارت کا کردار اور سفارتی رابطہ

بھارتی ہائی کمیشن نے پاکستان سے سفارتی سطح پر رابطہ کر کے دریائے ستلج میں سیلابی صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ وزارت آبی وسائل نے ایک انتباہی خط جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ہریکے اور فیروز پور کے مقامات پر پانی کی بلند سطح کی وجہ سے پاکستان کی جانب آنے والے پانی میں شدید سیلاب کا خطرہ ہے۔ بھارتی ڈیمز، خاص طور پر تھین ڈیم، کے مکمل ہونے سے یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے پانی کا اخراج پاکستان کے لیے ہر سال مون سون کے دوران ایک بڑا چیلنج بنتا ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان واٹر مینجمنٹ کے حوالے سے بہتر رابطے کی ضرورت ہے۔

آبی ذخائر اور موٹروے کی صورتحال

واپڈا کے ترجمان کے مطابق، تربیلا ریزوائر میں پانی کی سطح 1,549.87 فٹ اور ذخیرہ 57 لاکھ 21 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔ منگلا ریزوائر میں پانی کی سطح 1,228.55 فٹ اور ذخیرہ 62 لاکھ 31 ہزار ایکڑ فٹ ہے، جبکہ چشمہ ریزوائر میں پانی کی سطح 648.00 فٹ اور ذخیرہ 2 لاکھ 58 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔ مجموعی طور پر، تربیلا، منگلا، اور چشمہ ریزروائرز میں قابل استعمال پانی کا ذخیرہ 1 کروڑ 22 لاکھ 10 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔

دریائے سندھ میں تربیلا پر پانی کی آمد 179,500 کیوسک اور اخراج 178,500 کیوسک ہے۔ دریائے جہلم میں منگلا پر آمد 45,100 کیوسک اور اخراج 8,000 کیوسک ہے، جبکہ چشمہ بیراج پر آمد 250,700 کیوسک اور اخراج 246,000 کیوسک ہے۔ دریائے کابل میں نوشہرہ پر آمد اور اخراج 33,100 کیوسک ہے۔

ملتان-سکھر موٹروے (ایم-5) ہر قسم کی ٹریفک کے لیے کھلی ہوئی ہے، اور موٹروے پولیس، مقامی پولیس، اور رینجرز کی پیٹرولنگ جاری ہے۔ شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں موٹروے پولیس ہیلپ لائن 130 پر رابطہ کریں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

ایکس پر پنجاب کے سیلابی بحران نے شہریوں اور ماہرین کی توجہ حاصل کی ہے۔ ایک صارف نے لکھا، "46 اموات اور 37 لاکھ متاثرین! یہ کوئی معمولی آفت نہیں۔ حکومت کو فوری طور پر بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں شروع کرنی چاہئیں۔” ایک اور صارف نے تبصرہ کیا، "بھارت کا پانی چھوڑنا اور ہمارا ناقص واٹر مینجمنٹ ہر سال ہمیں ڈبو رہا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنے نظام کو مضبوط کریں۔” یہ ردعمل عوام کی مایوسی اور فوری حل کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔

تجزیہ

پنجاب میں موجودہ سیلابی بحران موسمیاتی تبدیلیوں، ناقص واٹر مینجمنٹ، اور شہری منصوبہ بندی کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ گجرات میں 577 ملی میٹر بارش، سیالکوٹ میں 355 ملی میٹر بارش، اور دریاؤں میں بھارت کی جانب سے پانی کے اخراج نے حالات کو تباہ کن بنا دیا ہے۔ دریائے ستلج، راوی، اور چناب میں پانی کی غیر معمولی بلند سطح نے نہ صرف زرعی شعبے کو تباہ کیا بلکہ شہری بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

ناقص نکاسی آب کا نظام، جیسے کہ گجرات اور سیالکوٹ میں نالوں کی عدم صفائی، اس بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ اگر برساتی نالوں کی صفائی اور ڈرینیج سسٹم کی اپ گریڈیشن پر توجہ دی جاتی تو شہری سیلاب کے اثرات کو کم کیا جا سکتا تھا۔ بھارت کی جانب سے پانی کا اخراج ایک اضافی چیلنج ہے، لیکن اسے مکمل طور پر مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ پاکستان کو اپنے واٹر مینجمنٹ سسٹم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، جیسے کہ ندیوں کی گہرائی بڑھانا، حفاظتی بندوں کی تعمیر، اور ڈیمز کی صلاحیت میں اضافہ۔

زرعی شعبے کو پہنچنے والا نقصان پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، کیونکہ پنجاب ملک کا زرعی قلب ہے۔ فصلوں کی تباہی نے کسانوں کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہے، اور اس کے اثرات شہروں میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ امدادی کیمپوں کا قیام ایک مثبت اقدام ہے، لیکن ان کی محدود گنجائش اور ناکافی وسائل شہریوں کی مشکلات کو کم نہیں کر رہے۔

حکومت کو فوری طور پر متاثرین کے لیے خوراک، پانی، طبی امداد، اور مالی معاوضہ فراہم کرنا چاہیے۔ طویل مدتی حل کے طور پر، واٹر مینجمنٹ کے نظام کو بہتر بنانا، نالوں کی صفائی، اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنانا ناگزیر ہے۔ 2022 کے سیلابوں کے بعد بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے یہ بحران دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ اگر اب بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو ہر سال ایسی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور انسانی نقصان کا باعث بنے گی۔ پنجاب کے شہریوں کی پکار ایک واضح پیغام ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت فوری اور طویل مدتی حل کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین