شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا قابلِ تقلید اقدام

ہر سال مینارِ پاکستان پر منعقد ہونے والی عظیم الشان عالمی میلاد کانفرنس اس بار ایوانِ اقبال لاہور میں منعقد کی جائے گی

قومیں صرف بڑے منصوبوں، بلند و بالا عمارتوں یا عظیم الشان تقریبات سے زندہ نہیں رہتیں بلکہ ان کی بقا اور وقار ان کے باہمی جذبۂ ایثار، ہمدردی اور یکجہتی میں پنہاں ہوتا ہے۔ پاکستان کی سرزمین ایک بار پھر سیلابی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر اور بے آسرا ہیں، کھیت کھلیان برباد ہو چکے ہیں اور معصوم بچوں کے چہرے بھوک و پیاس سے مرجھا گئے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی قومی، مذہبی یا سماجی ادارہ اپنی روایتی تقریبات کو متاثرین کی مدد کے ساتھ جوڑ دے تو یہ عمل نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ عین انسانیت اور اسلام کی اصل تعلیمات کا عکس ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بالکل ایسا ہی قدم اٹھایا ہے۔ ہر سال مینارِ پاکستان پر منعقد ہونے والی عظیم الشان عالمی میلاد کانفرنس اس بار ایوانِ اقبال لاہور میں منعقد کی جائے گی۔ یہ تبدیلی محض مقام بدلنے کا فیصلہ نہیں بلکہ ایک بڑی فکری اور عملی ترجیح کی علامت ہے۔ مینارِ پاکستان پر ہونے والی اس اجتماعیت پر جو بھاری انتظامی اخراجات آتے ہیں، اس بار انہیں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ کہنا کہ "رحمت اللعالمین ﷺ کی رحمت و شفقت کے سب سے زیادہ مستحق آج کے حالات میں سیلاب متاثرین ہیں” دراصل ایک عمیق حقیقت کو اجاگر کرتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا سب سے روشن پہلو انسانیت کے دکھ درد کو بانٹنا اور محروموں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔ میلاد النبی ﷺ کا جشن محض نعت خوانی، چراغاں یا اجتماعات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کی اصل روح یہ ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنی عملی زندگی میں ڈھالیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس فیصلے نے 1500ویں جشن ولادت کو ایک نئی معنویت عطا کر دی ہے۔

منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن پہلے ہی میدانِ عمل میں سرگرم ہے۔ تنظیم کے کارکنان امدادی سرگرمیوں میں شریک ہیں، اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں متاثرین تنہا نہیں۔ یہ اقدام متاثرہ خاندانوں کو نہ صرف مالی اور مادی سہارا فراہم کرے گا بلکہ انہیں یہ احساس بھی دلائے گا کہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہی احساس کسی بھی آفت زدہ شخص کے لیے سب سے بڑی طاقت ہوتا ہے۔

اسے بھی پڑھیں: ڈاکٹر طاہر القادری کا شوہروں کے لئے اہم مشورہ

ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے بیان میں ان شہریوں کے لیے دعا بھی کی ہے جو سیلاب کے دوران لقمۂ اجل بن گئے۔ ان کی مغفرت اور لواحقین کے صبر و سکون کے لیے دعا کرنا دراصل ان کے دلوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہے۔ ایک رہنما کی اصل پہچان یہی ہے کہ وہ قوم کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھے۔

اس فیصلے کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ پوری قوم کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔ بڑے اجتماعات اور تقریبات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، لیکن اگر ان وسائل کو وقتی طور پر ان مصیبت زدہ خاندانوں پر خرچ کیا جائے تو یہ انسانیت کی اصل خدمت ہوگی۔ یہ پیغام حکومت، دیگر سماجی اداروں اور عوامی نمائندوں کے لیے بھی ہے کہ وہ اپنی ترجیحات پر نظرثانی کریں اور جہاں ممکن ہو اپنے وسائل کو عوامی بھلائی پر خرچ کریں۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ فیصلہ صرف ایک تنظیمی یا مذہبی معاملہ نہیں بلکہ ایک قومی عمل ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل عبادت انسانیت کی خدمت میں ہے۔ جشنِ میلاد کو متاثرینِ سیلاب کی مدد کے ساتھ جوڑنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نبی رحمت ﷺ کے حقیقی پیروکار تبھی بن سکتے ہیں جب ہم محروموں، یتیموں اور مصیبت زدگان کے دکھ درد میں شریک ہوں۔

یہ اقدام نہ صرف متاثرین کے لیے سہارا ہے بلکہ پوری قوم کے لیے ایک دعوتِ فکر بھی ہے۔ اگر ہم سب اسی جذبے کے تحت اپنی ترجیحات کو ترتیب دیں تو پاکستان کی سماجی اور اخلاقی بنیادیں کہیں زیادہ مضبوط ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ بڑے فیصلے ہمیشہ عوامی بھلائی کے لیے ہونے چاہئیں۔ یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں اندھیروں سے نکال سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین