ہر شادی شدہ جوڑا والدین بننے کے قابل نہیں ہوتا، ثانیہ سعید

بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے جوڑوں کو اپنی صلاحیتوں اور حالات کا جائزہ لینا چاہیے

پاکستان کی سینئر اداکارہ ثانیہ سعید نے ایک حالیہ مارننگ شو میں بچوں کی پرورش کے حوالے سے ایک گہرا اور فکر انگیز بیان دیا ہے، جس نے معاشرتی بحث کو جنم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی پرورش ایک عظیم ذمہ داری ہے، اور ہر شادی شدہ جوڑا اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے تیار یا اہل نہیں ہوتا۔ ثانیہ سعید نے والدین کی ذہنی اور جذباتی صحت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے کو بچوں کے لیے دباؤ ڈالنے سے پہلے جوڑوں کی تیاری اور صلاحیت کا جائزہ لینا چاہیے۔

بچوں کی پرورش

ثانیہ سعید نے اپنی گفتگو میں بچوں کی پرورش کو ایک پیچیدہ اور بھاری ذمہ داری قرار دیا، جو ہر شادی شدہ جوڑے کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں اکثر جوڑوں کو بچوں کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن بہت سے جوڑوں کے پاس نہ تو جذباتی استحکام ہوتا ہے اور نہ ہی ذہنی تیاری جو ایک بچے کی پرورش کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے جوڑوں کو اپنی صلاحیتوں اور حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔

ثانیہ نے کہا کہ ایک بچے کی پرورش نہ صرف مالی وسائل بلکہ جذباتی اور ذہنی مضبوطی کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہر جوڑا اس بھاری ذمہ داری کو نبھانے کے لیے تیار ہوتا ہے؟ کیا وہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو بچوں کی پرورش کے ساتھ آتے ہیں؟ ان کے مطابق، معاشرے کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا والدین بچوں کی دیکھ بھال، تربیت، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ذہنی اور جذباتی طور پر تیار ہیں۔

معاشرتی دباؤ اور زچگی کے بعد ڈپریشن

ثانیہ سعید نے پاکستانی معاشرے کے اس رویے پر تنقید کی کہ شادی شدہ جوڑوں کو بچوں کے لیے غیر ضروری دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ اکثر جوڑوں کو اولاد پیدا کرنے پر مجبور کرتا ہے بغیر اس بات پر غور کیے کہ وہ اس ذمہ داری کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک چھوٹا بچہ والدین کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو سکتا ہے، جو ان کی ذہنی صحت کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

خاص طور پر، ثانیہ نے زچگی کے بعد ڈپریشن (postpartum depression) کے بڑھتے ہوئے واقعات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سی نئی مائیں زچگی کے بعد شدید ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہیں، اور اس کی ایک بڑی وجہ معاشرے کا غیر حقیقت پسندانہ دباؤ ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بچوں کے لیے دباؤ ڈالنے والے لوگ اکثر یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے اس رویے سے والدین اور بچوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی معاشرے میں ذہنی صحت کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، اور نئے والدین، خاص طور پر مائیں، اپنی ذہنی اور جذباتی مشکلات کو چھپانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ثانیہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہر جوڑا اپنی ذہنی اور جذباتی کمزوریوں کی وجہ سے بچوں کی پرورش کا اہل نہیں ہوتا، اور معاشرے کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔

والدین کی تیاری کا سوال

ثانیہ سعید نے والدین کی تیاری کے حوالے سے کئی اہم سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی پرورش کے لیے صرف شادی شدہ ہونا کافی نہیں؛ جوڑوں کو اپنی جذباتی، ذہنی، اور مالی صلاحیتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا والدین بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ ان مشکلات سے نمٹ سکتے ہیں جو ایک بچے کی پرورش کے ساتھ آتی ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ایک بچے کی ذہنی، جذباتی، اور جسمانی تربیت ایک ایسی ذمہ داری ہے جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

ثانیہ نے معاشرے سے اپیل کی کہ وہ شادی شدہ جوڑوں پر بچوں کے لیے دباؤ ڈالنے کے بجائے انہیں اپنی تیاری کا جائزہ لینے کی آزادی دے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی پرورش ایک انتخاب ہونا چاہیے، نہ کہ معاشرتی دباؤ کا نتیجہ۔ ان کے مطابق، اگر والدین ذہنی اور جذباتی طور پر تیار نہیں ہیں تو اس کا منفی اثر نہ صرف ان کی اپنی زندگی بلکہ بچوں کی تربیت اور مستقبل پر بھی پڑتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

ثانیہ سعید کے اس بیان نے ایکس پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، "ثانیہ سعید نے بالکل درست کہا۔ بچوں کی پرورش ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، اور ہر جوڑا اس کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ معاشرے کو اس دباؤ کو ختم کرنا چاہیے۔” ایک اور صارف نے تبصرہ کیا، "پاکستان میں ذہنی صحت کے مسائل کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ زچگی کے بعد ڈپریشن ایک بڑا مسئلہ ہے، اور اس پر بات کرنا ضروری ہے۔” یہ ردعمل اس بیان کی اہمیت اور معاشرتی تبدیلی کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔

ثانیہ سعید کا بیان پاکستانی معاشرے کے ایک اہم اور نظرانداز شدہ مسئلے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ بچوں کی پرورش ایک ایسی ذمہ داری ہے جو نہ صرف مالی وسائل بلکہ جذباتی اور ذہنی مضبوطی کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں شادی کے فوراً بعد بچوں کی توقع ایک سماجی معیار سمجھا جاتا ہے، ثانیہ کا یہ بیان ایک نئی سوچ کو متعارف کراتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ہر جوڑا بچوں کا مستحق نہیں ہوتا، ایک جرات مندانہ لیکن حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ہے جو معاشرتی دباؤ کو چیلنج کرتا ہے۔

زچگی کے بعد ڈپریشن اور ذہنی صحت کے مسائل پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں، لیکن ان پر بات کرنا اب بھی ایک معاشرتی ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ ثانیہ کا یہ بیان اس ممنوعہ کو توڑنے کی ایک کوشش ہے، جو نئے والدین، خاص طور پر ماؤں، کو اپنی مشکلات بیان کرنے کی ہمت دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ذہنی صحت کے حوالے سے شعور کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، اور اسے حل کرنے کے لیے نہ صرف انفرادی بلکہ ادارہ جاتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

حکومت اور صحت کے اداروں کو چاہیے کہ وہ زچگی کے بعد ڈپریشن اور والدین کی ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے آگاہی مہمات شروع کریں۔ اس کے علاوہ، ماہرین نفسیات اور کاؤنسلرز تک رسائی کو آسان بنانا ضروری ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں اور کم آمدنی والے طبقات کے لیے۔ معاشرے کو بھی اپنے رویوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور شادی شدہ جوڑوں کو بچوں کے لیے دباؤ ڈالنے کے بجائے انہیں اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کی آزادی دینی چاہیے۔

ثانیہ سعید کا یہ بیان ایک گہری حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ بچوں کی پرورش ایک انتخاب ہونا چاہیے، نہ کہ معاشرتی دباؤ کا نتیجہ۔ اگر ہم ایک صحت مند اور خوشحال معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں والدین کی ذہنی اور جذباتی صحت کو ترجیح دینی ہوگی۔ یہ بیان نہ صرف ایک بحث کا آغاز ہے بلکہ ایک ایسی تبدیلی کا مطالبہ بھی ہے جو آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین