دوحہ میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس آج منعقد ہوگا، 50 ملکوں کے رہنما شریک ہوں گے

اجلاس میں پاکستان، ایران، عراق، ترکی اور فلسطین سمیت متعدد ممالک کے سربراہان کی موجودگی متوقع ہے

قطر کی دارالحکومت دوحہ آج ایک تاریخی اور جذباتی لمحے کا گواہ بن رہی ہے، جہاں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اشتراک سے منعقدہ ایک عالمی اجلاس میں 50 سے زائد ممالک کے اعلیٰ افسران اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہ اجلاس، جو اسرائیلی جارحیت کی تازہ ترین حرکتوں خاص طور پر غزہ کی مسلسل تباہی اور دوحہ پر حالیہ فضائی حملے—کے تناظر میں بلایا گیا ہے، نہ صرف علاقائی اتحاد کی ایک مضبوط علامت ہے بلکہ فلسطینی قوم کی جدوجہد کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا ایک اہم موقع بھی ثابت ہوگا۔ اجلاس کی فضا میں غم و غصے کا ملغوبہ ہے، جہاں رہنما اسرائیل کی مبینہ ‘ریاستی دہشت گردی’ کے خلاف ایک مشترکہ آواز بلند کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

اجلاس کا پس منظر

یہ اجلاس 9 ستمبر 2025 کو ہونے والے اس براہ راست اسرائیلی حملے کی دھمکیوں سے پیدا ہونے والے بحران کا نتیجہ ہے، جس میں دوحہ میں حماس کے سیاسی رہنماؤں کی ایک اہم میٹنگ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں پانچ حماس رکن اور ایک قطری سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے، جبکہ یہ میٹنگ امریکی صدارت میں جاری جنگ بندی کی کوششوں کے تناظر میں ہو رہی تھی۔ قطر نے اسے اپنی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسے حماس کی جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹ ہٹانے کی کوشش قرار دیا۔ یہ حملہ نہ صرف قطر کی ثالثی کردار کو چیلنج کرتا ہے بلکہ ایران، لبنان، شام اور یمن پر بھی اسرائیلی حملوں کی ایک لمبی فہرست کو اجاگر کرتا ہے، جو غزہ میں جاری ‘انسانی تباہی’ کا حصہ ہیں۔

غزہ کی صورتحال، جہاں اسرائیلی فورسز کی بمباری سے اب تک ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور انسانی بحران عروج پر ہے، اجلاس کی مرکزی بحث ہوگی۔ رپورٹس کے مطابق، صرف حالیہ دنوں میں غزہ سٹی میں 48 سے زائد افراد شیلنگ اور فائرنگ کا شکار ہوئے، جو اجلاس کے دوران جاری رہنے والی جارحیت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف فلسطینیوں کی بقا کی جنگ ہے بلکہ علاقائی استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بھی بن چکی ہے۔

 ثالثی کوششوں پر حملوں کی مذمت

قطری وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے اجلاس سے قبل ایک تیاری میٹنگ میں اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا، جس میں انہوں نے اسرائیلی کارروائیوں کو قطر کی امن سازی کی کوششوں کو ناکام بنانے کی بزدلانہ کوشش قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے، جو حماس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے میں ناکام رہے، عالمی سطح پر دوہرے معیار کی ایک واضح مثال ہیں اور اسرائیل کو فوری طور پر جوابدہ بنانا ہوگا۔ شیخ محمد نے زور دیا کہ غزہ میں جاری ‘قومی تباہ کن جنگ’، جو فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوشش ہے، کبھی کامیاب نہ ہو سکے گی، چاہے اسے کتنی ہی جھوٹی توجیحات دی جائیں۔ انہوں نے عرب اور اسلامی ممالک کی حمایت کی تعریف کی اور کہا کہ یہ اجلاس قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی کے بعد ایک مشترکہ ردعمل کی بنیاد رکھے گا۔

یہ بیان نہ صرف قطر کی ناراضی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ امریکی کردار پر بھی سوالات اٹھاتا ہے، کیونکہ قطر نے حماس کو میزبانی دینے کا فیصلہ واشنگٹن کی درخواست پر کیا تھا، مگر حملہ روکنے میں ناکامی نے خلیجی ممالک میں امریکی اتحاد پر شکوک پیدا کر دیے ہیں۔

اہم رہنماؤں کی شرکت

اجلاس میں پاکستان، ایران، عراق، ترکی اور فلسطین سمیت متعدد ممالک کے سربراہان کی موجودگی متوقع ہے، جو اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیتی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی اور ترک صدر رجب طیب اردوان کی شرکت نہ صرف ان ممالک کی فلسطینی حمایت کی عکاسی کرتی ہے بلکہ علاقائی طاقتوں کے درمیان ایک نئی ہم آہنگی کی نوید بھی دیتی ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس پہلے ہی دوحہ پہنچ چکے ہیں، جہاں انہوں نے ابتدائی ملاقاتوں میں غزہ کی انسانی بحران پر فوری امداد کی اپیل کی۔ یہ رہنما نہ صرف سفارتی سطح پر بحث کریں گے بلکہ ایک ایسا پیغام دیں گے جو عالمی فورمز تک جائے گا۔

مسودہ قرارداد

ذرائع کے مطابق، اجلاس میں ایک جامع مسودہ قرارداد پیش کی جائے گی، جو دوحہ پر حملے کی شدید مذمت کرے گی اور غزہ میں اسرائیلی ‘انسانی صفائی، بھوک اور محاصرے’ کی پالیسیوں کو علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دے گی۔ قرارداد میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی برادری سے فوری اور ٹھوس کوششوں کی اپیل کی جائے گی، جو نارملائزیشن کی کوششوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ تاہم، اب تک اس میں کوئی اقتصادی یا سفارتی پابندیوں کی شق شامل نہیں کی گئی، جو اجلاس کی تیاری میٹنگز میں طے پایا۔ یہ قرارداد نہ صرف اسرائیلی جارحیت کو ‘دہشت گردی’ قرار دے گی بلکہ حماس پر حملے کو امن مذاکرات کی توہین بھی کہے گی۔

سفارتکاروں کا خیال ہے کہ یہ اجلاس خلیجی اور اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کو مزید مستحکم کرے گا، خاص طور پر قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے، جو امریکی اتحاد کے باوجود اسرائیلی حملے کا شکار ہوا۔ یہ ملاقات نہ صرف غزہ کی جنگ بندی کی بحالی کی کوششوں کو تقویت دے گی بلکہ علاقائی نارملائزیشن کی راہ میں رکاوٹوں کو بھی واضح کرے گی۔

یہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ جغرافیائی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، جہاں قطر پر حملہ نہ صرف ثالثی کے کردار کو چیلنج کرتا ہے بلکہ امریکی ضمانتوں پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ قطری وزیراعظم کی تنقید سے واضح ہے کہ اسرائیل کی جارحیت، جو غزہ میں انسانی بحران کو جنوسائیڈ کی سطح تک لے گئی ہے، عالمی سطح پر دوہرے معیار کو بے نقاب کر رہی ہے۔ قرارداد کی مذمت تو مضبوط ہوگی، مگر اقتصادی یا سفارتی اقدامات کی عدم موجودگی اسے ایک علامتی قدم بنا سکتی ہے، جو عملی عمل کی کمی کی نشاندہی کرتی ہے۔

پاکستان، ایران اور ترکی جیسی طاقتوں کی شرکت سے یہ اجلاس ایک نئی مسلم هم آہنگی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جو اسرائیل کی نارملائزیشن کی کوششوں کو روکے گا۔ تاہم، امریکی صدر ٹرمپ کی موجودہ پالیسیاں اور نیتن یاہو کی سختی اسے مزید پیچیدہ بنا دیں گی۔ مجموعی طور پر، یہ اجلاس فلسطینی جدوجہد کو عالمی توجہ دلائے گا، مگر کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ کیا یہ الفاظ سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات میں تبدیل ہوتا ہےایک ایسا چیلنج جو عرب اور اسلامی دنیا کی متحدہ آواز کو آزمائے گا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین