پاکستانی حکومت نے آئندہ پندرہ دنوں کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت نے پیٹرول کی قیمت فی لیٹر کو جوں کا توں رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے آئندہ پندرہ دنوں تک۔
نوٹیفکیشن
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ پندرہ دنوں کے لیے ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت فی لیٹر میں 2 روپے 78 پیسے کا اضافہ ہو گیا ہے۔
پٹرول اور ڈیزل کی نئی قیمت
اس نئے اضافے کے نتیجے میں ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت فی لیٹر 272 روپے 77 پیسے ہو گئی ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمت کو 264 روپے 61 پیسے فی لیٹر پر مستحکم رکھا گیا ہے۔
لوگوں کی زندگیوں پر اس کا اثر
ڈیزل کی قیمت میں یہ اضافہ براہ راست ٹرانسپورٹیشن اور لاجسٹکس کی لاگت کو بڑھا دے گا، جو خاص طور پر ٹرکوں، بسوں اور مال برداری کی گاڑیوں پر اثر انداز ہو گا۔ اس سے اشیاء خوردونوش اور دیگر ضروری سامان کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں، جو مہنگائی کو مزید ہوا دے گی اور عام لوگوں کے لیے گھریلو اخراجات میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ زرعی شعبے میں ڈیزل استعمال کرنے والے کسانوں پر بھی بوجھ پڑے گا، کیونکہ ٹریکٹر اور دیگر مشینری کی آپریشنل لاگت بڑھ جائے گی، جو فصلوں کی پیداوار اور مارکیٹ تک پہنچانے کے اخراجات کو متاثر کرے گی۔ دوسری طرف، پیٹرول کی قیمت مستحکم رکھنے سے پرائیویٹ کاروں اور موٹر سائیکلوں کے مالکان کو کچھ ریلیف ملے گا، لیکن مجموعی طور پر ڈیزل کی وجہ سے اقتصادی دباؤ کم آمدنی والے طبقے پر زیادہ پڑے گا، جو پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری سے دوچار ہیں۔ یہ اضافہ عوامی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی ممکنہ طور پر اضافہ لائے گا، جو روزمرہ سفر کرنے والوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دے گا۔
اسے بھی پڑھیں: سبزیوں میں پائے جانے والے اجزا کینسر کے خلاف ڈھال بن سکتے ہیں،تحقیق
پاکستان میں ٹیکس اور لیوی کے بغیر پیٹرول کی قیمت
اس وقت پاکستان میں پیٹرول کی ex-refinery price (یعنی ریفائنری سے نکلنے والی بنیادی قیمت) تقریباً 159 روپے فی لیٹر
ہے۔ ٹیکس (جیسے کسٹمز ڈیوٹی اور جنرل سیلز ٹیکس، جو اب زیرو ہے) اور لیوی (جیسے پیٹرولیم لیوی، جو تقریباً 78 روپے فی لیٹر ہے) کے بغیر، پیٹرول کی قیمت میں دیگر اجزاء جیسے ان لینڈ فریٹ ایکوئلائزیشن مارجن (IFEM، تقریباً 8 روپے)، آئل مارکیٹنگ کمپنیز (OMC) مارجن (تقریباً 8 روپے)، اور ڈیلر مارجن (تقریباً 9 روپے) شامل کرنے کے بعد یہ تقریباً 184 روپے فی لیٹر بنتی ہے (یہ اندازہ حالیہ دستیاب ڈیٹا پر مبنی ہے، جہاں مکمل ریٹیل قیمت 264.61 روپے ہے اور ٹیکسز/لیویز کا حصہ باقی فرق کو پورا کرتا ہے)۔ یہ قیمت عالمی خام تیل کی قیمتوں، کرنسی ایکسچینج ریٹ اور سپلائی چین کی لاگت پر منحصر ہوتی ہے، اور ہر پندرہ دن بعد نظرثانی کی جاتی ہے۔
تجزیہ
پیٹرولیم کی قیمتوں میں یہ تبدیلی پاکستان کی اقتصادی صورتحال، عالمی مارکیٹ کے رجحانات اور حکومت کی پالیسیوں کا آئینہ دار ہے۔ سب سے پہلے، عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں اس اضافے کی بنیادی وجہ ہیں؛ ستمبر 2025 میں بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈیزل سے متعلقہ پروڈکٹس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، جو پاکستان جیسے درآمد کنندہ ملک پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ حکومت نے پیٹرول کی قیمت کو مستحکم رکھ کر شہری طبقے کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے، جو زیادہ تر نجی گاڑیوں پر منحصر ہے، لیکن ڈیزل کا اضافہ زرعی اور صنعتی شعبوں کو متاثر کرے گا، جہاں ڈیزل ٹرانسپورٹ اور جنریٹرز کے لیے کلیدی ہے۔ اقتصادی طور پر، یہ مہنگائی کی شرح کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ ڈیزل کی لاگت اشیاء کی سپلائی چین کو متاثر کرتی ہے، جس سے خوراک اور دیگر اشیاء کی قیمتیں 2-5% تک بڑھ سکتی ہیں، خاص طور پر کم آمدنی والے گھرانوں پر بوجھ پڑے گا۔
حکومت کی پالیسیاں بھی اہم ہیں: پیٹرولیم لیوی اور دیگر ٹیکسز ریونیو اکٹھا کرنے کا اہم ذریعہ ہیں، جو IMF کی شرائط اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں PL کو 70-78 روپے فی لیٹر تک بڑھایا گیا ہے، جو قیمتوں کا تقریباً 30% ہے، اور یہ اضافہ ریونیو ٹارگٹس پورے کرنے کے لیے ہے، لیکن یہ عوامی ناراضی کو جنم دے سکتا ہے۔ زرعی سیکٹر پر اثر شدید ہو گا، کیونکہ ڈیزل کی قیمت بڑھنے سے کٹائی اور ٹرانسپورٹ کی لاگت بڑھے گی، جو فوڈ سیکورٹی اور برآمدی شعبے کو چیلنج کرے گا۔ صنعتی سطح پر، مینوفیکچرنگ اور لاجسٹکس کی لاگت بڑھنے سے جی ڈی پی کی نمو کم ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب ملک پہلے ہی انرجی بحران سے دوچار ہے۔
مثبت پہلو یہ ہے کہ پیٹرول کی مستحکم قیمت شہری معیشت کو سہارا دے گی، اور اگر عالمی قیمتیں کم ہوئیں تو آئندہ نظرثانی میں ریلیف ممکن ہے۔ تاہم، طویل مدتی حل کے لیے، پاکستان کو مقامی ریفائننگ کی صلاحیت بڑھانے، متبادل انرجی (جیسے سولر اور الیکٹرک وہیکلز) کو فروغ دینے اور کرنسی کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درآمدات پر انحصار کم ہو۔ مجموعی طور پر، یہ اضافہ قلیل مدتی اقتصادی دباؤ لائے گا، لیکن اگر ریونیو کا درست استعمال ہو تو انفراسٹرکچر اور سبسڈیز میں سرمایہ کاری سے فائدہ ہو سکتا ہے۔





















