خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کی سرزمین پر رات کی سناٹی خاموشی کو فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں نے توڑنے کی کوشش کی، مگر کرک پولیس کی بے مثال ہمت اور فوری ردعمل نے ان کے شیطانی منصوبے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ تھانہ گرگری پر 25 سے 30 مسلح دہشت گردوں کی درندگی بھری کارروائی ناکام بنا دی گئی، جبکہ ایک الگ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں بدنام زمانہ اشتہاری مجرم اور ڈکیت گروہ کے سرغنہ شہباز عرف پنجابی کو ہلاک کر دیا گیا۔ یہ واقعات نہ صرف علاقائی امن کے محافظوں کی کارکردگی کی ایک زندہ مثال ہیں بلکہ ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری جنگ میں ایک اہم فتح بھی ثابت ہوئے، جو مقامی آبادی کو خوف کے سائے سے نجات دلانے کی نوید لے کر آئے۔
تھانہ گرگری پر درندگی کا ناکام منصوبہ
رات کے گہرے اندھیروں میں، جب تھانہ گرگری کی حدود میں فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں نے اپنی شیطانی سازش کا جال بچھانا شروع کیا، تو پولیس کی تیز بینائی نے ان کی مشکوک نقل و حرکت کو فوراً سمجھ لیا۔ بغیر کسی تاخیر کے، پولیس نے فائرنگ کا آغاز کر دیا، جس کی شدت نے ان بزدل حملہ آوروں کو چند لمحوں میں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہ جھڑپ ایک ایسا منظر پیش کر گئی جہاں دہشت گردوں کی ہمت جواب دے گئی اور وہ اپنے ہتھیار چھوڑ کر تاریکیوں میں گم ہو گئے۔ خوش قسمتی سے، آپریشن کے دوران پولیس کا ایک بھی اہلکار زخمی نہ ہوا، اور تھانے کی حدود مکمل طور پر محفوظ رہیں۔ ضلع پولیس آفیسر (ڈی پی او) کرک شہباز الہٰی نے میڈیا کو بتایا کہ یہ کارروائی علاقائی سلامتی کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے، جہاں پولیس کی تیاری نے ممکنہ تباہی کو روک لیا۔ حالات اب مکمل طور پر قابو میں ہیں، اور سرچ آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے تاکہ کوئی بھی باقی ماندہ خطرہ ختم کیا جا سکے۔
یعقوب شہید تھانہ کی حدود میں انٹیلی جنس کی فتح
اسی سلسلے میں، تھانہ یعقوب شہید کی حدود میں لمرکی قبرستان کے قریب ایک انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن نے کرک پولیس کو ایک اور شاندار کامیابی عطا کی۔ خفیہ معلومات کی بنیاد پر شروع ہونے والے اس آپریشن میں، جب پولیس پارٹی نے مشتبہ عناصر کو گھیرا، تو ملزمان نے بے پناہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی۔ اس دو طرفہ جھڑپ نے علاقے کو ایک لمحے کے لیے سنسنی پھیلا دی، مگر پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت نے حالات کو فوری طور پر سنبھال لیا۔ جھڑپ کے خاتمے کے بعد، سرچ آپریشن کے دوران ایک ہلاک ملزم کی لاش برآمد ہوئی، جس کی شناخت سابقہ ریکارڈ سے بدنام زمانہ اشتہاری مجرم اور ڈکیت گروہ کے سرغنہ شہباز عرف پنجابی کے طور پر ہوئی۔ یہ مجرم، جو اپنے جرائم کی لمبی فہرست کی وجہ سے مطلوب تھا، اب انصاف کی زد میں آ گیا ہے، اور اس کی موت جرائم کی دنیا میں ایک واضح پیغام ہے کہ قانون کا ہاتھ کسی کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔
پولیس کا عزم
ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) کوہاٹ عباس مجید مروت نے اس موقع پر اپنے بیان میں زور دیا کہ کرک پولیس دہشت گردوں سمیت تمام جرائم پیشہ عناصر کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز تر رکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت پولیس کا فرض ہے، اور اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہر اہلکار ہر لمحہ تیار رہتا ہے۔ یہ بیان نہ صرف پولیس کی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مقامی کمیونٹی کو بھی یہ اعتماد دلاتا ہے کہ ان کی حفاظت کوئی اتفاقی معاملہ نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے۔ کرک جیسے حساس علاقوں میں، جہاں دہشت گردی کی جڑیں ابھی تک مکمل طور پر اکھاڑی نہیں گئیں، ایسی کارروائیاں امن کی بحالی کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
علاقائی امن کی راہ میں رکاوٹیں اور پولیس کی تیاری
یہ حالیہ واقعات خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں، جہاں فتنۃ الخوارج جیسے گروہ اپنی شیطانی سرگرمیوں سے علاقائی استحکام کو چیلنج کر رہے ہیں۔ تاہم، پولیس کی فوری اور موثر کارروائیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ان آپریشنز کے دوران استعمال ہونے والے انٹیلی جنس نیٹ ورک اور جدید آلات نے نہ صرف حملہ آوروں کو بھگایا بلکہ ایک اہم مجرم کو بھی ختم کر دیا، جو مستقبل کی ممکنہ سازشوں کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ مقامی رہائشیوں نے بھی اس کامیابی پر پولیس کی تعریف کی ہے، جو ان کے اعتماد کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔
یہ حالیہ کارروائیاں کرک اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی ایک مثبت سمت کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں پولیس کی انٹیلی جنس بیسڈ حکمت عملی نے دہشت گردوں کی ہمت توڑ دی ہے۔ شہباز عرف پنجابی جیسی شخصیت کا خاتمہ نہ صرف ڈکیت اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو کمزور کرے گا بلکہ دیگر مجرمان کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے کہ قانون کی گرفت ہر جگہ پہنچ سکتی ہے۔ تاہم، فتنۃ الخوارج جیسے گروہوں کی مسلسل سرگرمیاں علاقائی جغرافیائی سیاست کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتی ہیں، جہاں سرحد پار مداخلت اور مقامی عوامل دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں۔ پولیس کی کامیابیوں کے باوجود، طویل مدتی امن کے لیے انٹیلی جنس کی مضبوطی، مقامی کمیونٹی کی شمولیت اور ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کی جڑیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکیں۔ مجموعی طور پر، یہ واقعات پاکستان کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی بہادری کی ایک عمدہ مثال ہیں، مگر یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ دہشت گردی کا مقابلہ ایک مسلسل جنگ ہے جس میں ہر شہری کا کردار ناگزیر ہے۔





















