بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حالیہ تقریر نے ایک بار پھر ان کی نفرت کی سیاست کو بے نقاب کر دیا ہے، جہاں انہوں نے اپنی فوج کو سیاسی پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا لیا اور ملکی سالمیت کے مقدس نام پر نفرت، تشدد اور ریاستی جبر کو جواز فراہم کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ مودی کی تقریر میں آپریشن سندور کی جھوٹی کامیابیوں کا راگ الاپا جاتا رہا، جبکہ اس کی حقیقت کانگریس کی تنقید اور حقائق کی روشنی میں ناکامی کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، مقبوضہ کشمیر کے بعد اب دیگر ریاستوں میں آبادیاتی تبدیلی کی سازشیں بھی سامنے آ گئی ہیں، جو مودی سرکار کے فاشسٹ ایجنڈے کی ایک اور کڑی ثابت ہوئیں۔ یہ تمام اقدامات اقلیتوں کی شناخت مٹانے اور ہندو تسلط قائم کرنے کی گھناؤنی کوششوں کا حصہ ہیں، جو مودی کی تقریروں میں زہر آلود بیانیے کی شکل میں جھلکتے ہیں۔
آپریشن سندور کی جھوٹی فتح
نریندر مودی نے اپنے خطاب میں فوج کی تعریف تو کی، مگر اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج ہماری فوج آپریشن سندور کرتی ہے اور پاکستان کے کونے کونے میں دہشت گردوں کے لیڈروں کو تباہ کر دیتی ہے۔ یہ بیان نہ صرف آپریشن سندور کی مبینہ کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے بلکہ اس کی ناکامیوں پر کانگریس کی تنقید کو دبانے کی کوشش بھی ہے۔ مودی نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ ہندوستانی فوج کے بجائے پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے اور پاکستان کا جھوٹ ان کا ایجنڈا بن جاتا ہے، اس لیے عوام کو ہمیشہ کانگریس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ یہ الزامات آپریشن سندور کی ناکامی پر کانگریس کے کڑے سوالات اور حقائق کی روشنی میں مودی کی جھوٹ پھیلانے کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں انہوں نے فوج کی قربانیوں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بنا دیا۔
آپریشن سندور، جو مئی 2025 میں پہلگام دہشت گرد حملے کے جواب میں شروع ہوا، بھارتی دعوؤں کے برعکس ایک ناکام مہم ثابت ہوا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے اسے ایک ‘نئی نارمل’ قرار دیا، جہاں بھارتی فورسز نے پاکستان کے اندر دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، مگر بین الاقوامی رپورٹس اور پاکستانی ردعمل نے اس کی حدود کو واضح کر دیا۔ مودی کی تقریر میں پاکستان کو ‘نیوکلیئر بلیک میل’ کا ذریعہ قرار دینا بھی ایک پروپیگنڈہ ہے، جو ان کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے۔ کانگریس کی تنقید کہ آپریشن سندور ایک ‘تماشہ’ تھا، مودی نے زہر اگلتے ہوئے رد کی، جو ان کی سیاسی سفاکی کی ایک اور مثال ہے۔
جھوٹ اور الزام تراشی کا سلسلہ
مودی کی تقریر کا ایک بڑا حصہ کانگریس پر حملوں سے بھرا ہوا تھا، جہاں انہوں نے حزب اختلاف کو پاکستان کا ‘ریموٹ کنٹرول’ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس فوج کی مخالفت کرتی ہے اور دہشت گردوں کو ضمانت دیتی ہے، جو ایک واضح جھوٹ ہے۔ آپریشن سندور کی ناکامی پر کانگریس کے سوالات جیسے کہ PoK کی واپسی کیوں نہ ہوئی اور حملہ آوروں کی غیر ملکی شناخت کا ثبوت کیوں نہ دیا گیا—کو مودی نے تسلیم کرنے کے بجائے الزام تراشی کا سہارا لیا۔ انہوں نے کانگریس کو پاکستان کی ‘صفائی’ دینے والا قرار دیا، جو ان کی دوغلی سیاست کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ حملے نہ صرف سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوشش ہیں بلکہ فوج کی اخلاقیات کو بھی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی ایک گھناؤنی مثال ہیں۔
آبادیاتی تبدیلی کا نیا ہدف
مودی کی تقریر کا سب سے خطرناک حصہ سرحدی علاقوں میں آبادیاتی تبدیلی کی سازشوں کا ذکر تھا، جہاں انہوں نے کہا کہ ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوششیں قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہیں، اس لیے اب ملک میں ڈیموگرافی کا مشن شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ بیان مقبوضہ کشمیر کے بعد اب دیگر ریاستوں میں اقلیتوں کی شناخت مٹانے کی مودی سرکار کی گھناؤنی کوششوں کی تصدیق کرتا ہے۔ 2019 میں آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد، کشمیر میں ہزاروں غیر مقامی افراد کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے، جو مسلم اکثریت کو تبدیل کرنے کی ایک واضح سازش تھی۔ اب یہ پالیسی ہماچل پردیش، اٹرھنڈ، جھارکھنڈ اور اوڈیشا جیسی ریاستوں تک پھیل چکی ہے، جہاں مقامی قبائلی اور آبادیوں کی زمینوں پر غیر مقامی ہندوؤں کو آباد کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ڈیموگرافی مشن کے تحت، مودی سرکار نے زمینوں کی خریداری اور نوکریوں میں غیر مقامیوں کو ترجیح دی، جو اقلیتوں کے خلاف نفرت اور انتہا پسندی کو ہوا دیتا ہے۔ کشمیر میں 25,000 سے زائد ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری ہونے سے مسلم آبادی کی 68 فیصد اکثریت خطرے میں ہے، اور اب یہ منصوبہ دیگر ریاستوں میں پھیل رہا ہے۔ یہ اقدامات ہندو تسلط قائم کرنے کا فاشسٹ ایجنڈا ہیں، جو مودی کی تقریروں میں جھوٹے دعوؤں اور زہر آلود بیانیے کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔
نفرت کا بیانیہ
مودی کی تقریر میں نفرت اور انتہا پسندی کا زہر اس قدر گھلا ہوا تھا کہ یہ ان کی دوغلی سیاست کا واضح عکس لگتا تھا۔ انہوں نے سرحدی علاقوں میں ‘سازشیں’ کا ذکر کرتے ہوئے ڈیموگرافی مشن کا اعلان کیا، جو اقلیتوں کی شناخت مٹانے کی ایک کھلی دعوت ہے۔ یہ منصوبہ کشمیر کی طرح دیگر ریاستوں میں بھی مسلم اور قبائلی آبادیوں کو نشانہ بناتا ہے، جہاں زمینوں کی ضبطی اور غیر مقامی آبادکاری سے مقامی حقوق چھین لیے جا رہے ہیں۔ مودی کی نفرت انگیز تقریر نے فوج کو اس پروپیگنڈے کا حصہ بنا دیا، جو ملکی سالمیت کے نام پر تشدد اور جبر کو جواز فراہم کرتی ہے۔ یہ سب کچھ مودی سرکار کے مذموم سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے، جو فاشزم کی راہ پر گامزن ہے۔
مودی کی یہ تقریر بھارتی سیاست میں نفرت اور تقسیم کی ایک نئی مثال ہے، جو آپریشن سندور جیسی فوجی کارروائیوں کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہوئے کانگریس کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ آپریشن سندور، جو پہلگام حملے کے جواب میں شروع ہوا، بھارتی دعوؤں کے برعکس ایک محدود اور متنازعہ کارروائی تھی، جہاں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو سفارتی فائدہ ملا اور بھارت کی تنہائی واضح ہوئی۔ مودی کا کانگریس پر الزام تراشی نہ صرف ان کی ناکامی چھپانے کی کوشش ہے بلکہ حزب اختلاف کو خاموش کرنے کا ذریعہ بھی، جو جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔
آبادیاتی تبدیلی کا ذکر مودی سرکار کے فاشسٹ ایجنڈے کی تصدیق کرتا ہے، جہاں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں غیر مقامی آبادکاری سے مسلم اکثریت کو خطرہ لاحق ہے، اور اب یہ دیگر ریاستوں تک پھیل چکا ہے۔ یہ پالیسیاں اقلیتوں کی شناخت مٹانے اور ہندو تسلط قائم کرنے کی کوشش ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ مودی کی نفرت کی سیاست نہ صرف اندرونی تقسیم بڑھاتی ہے بلکہ پاکستان اور عالمی سطح پر تناؤ کو بھی ہوا دیتی ہے۔ مستقبل میں، اسے روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ اور اندرونی مزاحمت کی ضرورت ہے، ورنہ بھارت کی جمہوریت مزید کمزور ہو جائے گی۔





















