لاہور:پاکستان عوامی تحریک کے سینئر مرکزی راہنما خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں گندم کے مسئلہ پر پنجاب کے خلاف قرارداد کی منظوری باعث تشویش ہے، مسائل مخالفانہ قراردادوں سے نہیں مکالمہ سے حل ہوں گے۔ سیلاب میں بہت کچھ بہہ گیا مگر قومی یکجہتی نہیں بہنی چاہیے، گندم کا مسئلہ مفادات کی مشترکہ کونسل میں حل کیا جائے۔ عوام کی فوڈ سکیورٹی وفاق کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا خیبرپختونخوا حکومت کا موقف ہے مشکل وقت میں پنجاب حکومت کی گندم کی نقل و حمل پر پابندی عائد کرکے صوبہ کے کروڑوں عوام کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں اور آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں 68فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اتنا مہنگا آٹا صوبہ کے متوسط اور کم آمدنی والے شہری نہیں خرید سکتے، پنجاب حکومت کو اس الزام کا بلاتاخیر سنجیدگی سے جواب دینا چاہیے کیونکہ صوبے انتظامی امور کے لئے ہیں پاکستان کے ہر شہری کا پاکستان کے وسائل پر یکساں حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ آل پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کی طرف سے بھی گندم کی نقل و حمل پر پابندی عائد کرنے کی تصدیق کی گئی ہے فلور ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے ملک کے اندر آزادانہ ٹریڈ کو روکنا آئین کے آرٹیکل 151کی خلاف ورزی اور بنیادی حقوق کی نفی ہے۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ حکمران سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے عوامی حلقوں کو دل کھول کر مدد کرنے کی اپیلیں کررہے ہیں۔ اگر وہ خود اپنے دل کو تنگ کریں گے تو پھر امدادی سرگرمیوں اور قومی یکجہتی کو ناقابل نقصان پہنچے گا۔
خیبرپختونخوا کے عوام سیلاب کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی آفت سے بھی نمٹ رہے ہیں اور اس حوالے سے ہماری فوج امن اور عوام کے تحفظ کے لئے ایک خطرناک جنگ لڑرہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر شہادتیں ہورہی ہیں اس نازک موقع پر خیبرپختونخوا کے لئے پنجاب سمیت دیگر صوبوں کا رویہ ہمدردانہ ہونا چاہیے، پنجاب کو مشکل کی اس گھڑی میں بڑے بھائی والا کردار ادا کرنا چاہیے، انہوں نے خیبرپختونخوا کی حکومت سے بھی کہا کہ مخالفانہ قراردادوں سے تقسیم اور تفریق بڑھے گی، لہٰذا مکالمہ سے کام لیا جائے۔ قومی یکجہتی کا تحفظ چاروں صوبائی حکومتوں اور عوام کی یکساں ذمہ داری ہے۔
روزنامہ تحریک کے سینئر تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ بیان ملکی سیاست اور معاشرت کے ایک نہایت حساس اور اہم پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ خرم نواز گنڈاپور کی گفتگو محض ایک سیاسی تنقید نہیں بلکہ ایک قومی پیغام ہے جو وفاقی یکجہتی، باہمی احترام اور صوبائی تعاون کی ضرورت کو یاد دلاتا ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں گندم کے مسئلہ پر پنجاب کے خلاف قرارداد کی منظوری یقیناً ایک سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ اس طرح کے اقدامات صوبائی ہم آہنگی کو متاثر کرسکتے ہیں۔ گنڈاپور کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مسائل کا حل قراردادوں یا الزامات کے ذریعے نہیں بلکہ مکالمہ اور مذاکرات کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔
پاکستان اس وقت دوہری آزمائشوں سے گزر رہا ہے—ایک طرف حالیہ سیلاب نے ملک کے بڑے حصے کو متاثر کیا، بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، دوسری طرف خیبرپختونخوا اب بھی دہشت گردی کے خطرے اور امن و امان کی سنگین صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں قومی یکجہتی کو برقرار رکھنا اور ہر صوبے کو دوسرے کی مشکلات میں ساتھ دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے جو براہ راست عام آدمی کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ گنڈاپور نے نہایت بجا کہا کہ عوام کی فوڈ سکیورٹی وفاق کی ذمہ داری ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 151 کے تحت بین الصوبائی تجارت پر پابندی لگانا بنیادی حقوق کی نفی ہے، اور اس بات کو فلور ملز ایسوسی ایشن کی تصدیق نے مزید تقویت دی ہے۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ خیبرپختونخوا حکومت کے خدشات کا فوری اور شفاف جواب دے تاکہ عوام میں پھیلتی بے چینی اور محرومی کا احساس ختم ہو۔
یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ گنڈاپور نے صرف پنجاب حکومت کو مخاطب نہیں کیا بلکہ خیبرپختونخوا حکومت کو بھی نصیحت کی کہ مخالفانہ قراردادوں سے گریز کرے کیونکہ یہ رویہ قومی اتحاد کو کمزور کرتا ہے۔ تقسیم اور نفرت کی سیاست وقتی طور پر مقبولیت تو دلا سکتی ہے لیکن ملک کو نقصان پہنچاتی ہے۔ چاروں صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ ایک مضبوط اور مربوط پاکستان کی بنیاد ڈالی جا سکے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاق ایک فعال کردار ادا کرے اور مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کو متحرک کرے تاکہ گندم کی تقسیم اور اس کی نقل و حمل کے حوالے سے ایک ایسا فریم ورک تیار ہو جو تمام صوبوں کے لیے قابل قبول ہو۔ پنجاب کے لیے بھی یہ ایک موقع ہے کہ وہ بڑے بھائی کی حیثیت سے آگے بڑھے اور دیگر صوبوں کے ساتھ تعاون کر کے ایک عملی مثال قائم کرے۔
خرم نواز گنڈاپور کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک مفاہمتی اور وحدت کو فروغ دینے والے رہنما ہیں جو چاہتے ہیں کہ بحران کے اس دور میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے اجتماعی مسائل کے حل پر توجہ دی جائے۔ یہ رویہ ہمارے قومی مفاد کے عین مطابق ہے اور اگر حکومتیں اور ادارے اس سوچ کو اپنائیں تو بہت سی معاشی اور معاشرتی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔





















