پاکستان کی توانائی کی دنیا میں ایک نئی فصل لگ رہی ہے، جہاں وفاقی حکومت نے سالہا سال کی پابندیوں کے بعد نئے گیس کنکشنز کی راہ کھول دی ہے، مگر یہ راہ آر ایل این جی کی مہنگی روشنی کی ہے۔ وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور دو بڑی گیس یوٹیلیٹیز سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل)کو ہدایت کی ہے کہ وہ صارفین کی نئی درخواستیں فوری طور پر پروسیس کریں، لیکن صرف آر ایل این جی پر مبنی ماہانہ ٹیرف کے تحت یہ فیصلہ 10 ستمبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں منظور ہوا، جو عوامی مطالبات کی ایک اہم کامیابی تو ہے مگر صارفین کے لیے دوگنا بوجھ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
کابینہ کا منظور شدہ فریم ورک
پیٹرولیم ڈویژن نے کابینہ کے منظور کردہ فریم ورک کو سوئی کمپنیوں کو بھیج دیا ہے، جس کے تحت ملکی گیس پر نئے کنکشنز کی مستقل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، پہلے سے وصول شدہ 30 لاکھ درخواستیں منسوخ قرار دے دی گئی ہیں، جو صارفین کے لیے ایک تلخ خبر ہے۔ نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا کہ کابینہ نے نئی پابندی میں نرمی کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ نئے صارفین کو آر ایل این جی کسی بھی سبسڈی والے نرخ پر فراہم نہ کی جائے۔ سوئی کمپنیاں اب اوگرا کے نوٹیفائی شدہ ماہانہ آر ایل این جی ٹیرف پر تمام درخواستوں کو پروسیس کرنے کی مجاز ہو جائیں گی، جو ایک نئی شروعات کی نوید لے کر آئی ہے۔
فریم ورک کے تحت، آر ایل این جی پر مبنی گھریلو کنکشنز کا سالانہ ہدف اوگرا مقرر کرے گا، جو آر ایل این جی کی دستیابی اور کمپنیوں کی پروسیسنگ کی صلاحیت پر منحصر ہوگا۔ پہلا سالانہ ہدف ایک لاکھ 20 ہزار کنکشنز کا طے کیا گیا ہے، جو صارفین کی طویل انتظار کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔
پرانی درخواستیں
وہ صارفین جو پہلے ہی کنکشن فیس، ڈیمانڈ نوٹ یا انڈسٹریل فیس ادا کر چکے ہیں، انہیں ترجیح دی جائے گی، مگر انہیں سکیورٹی کا فرق ادا کرنا ہوگا اور خصوصی آر ایل این جی سپلائی معاہدے پر دستخط کرنے ہوں گے۔ تمام ایسی درخواستیں میرٹ لسٹ میں سکیورٹی یا ڈیمانڈ نوٹ فیس کی ادائیگی کی تاریخ کی بنیاد پر شامل کی جائیں گی۔ اڑھائی لاکھ ایسے صارفین ہیں جنہوں نے پابندی کی وجہ سے کنکشن نہ پا سکے، انہیں نیا حلف نامہ دینا ہوگا کہ وہ عدالت نہیں جائیں گے اور نئی فیس ادا کریں گے۔
پابندی سے قبل، صارفین 25 ہزار روپے ادا کر کے ترجیحی بنیاد پر کنکشن حاصل کر سکتے تھے، جبکہ عام فیس 5 ہزار سے ساڑھے 7 ہزار روپے تھی۔ اب ایک کنکشن کی فیس 40 ہزار سے 50 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، اور اوگرا وقتاً فوقتاً سکیورٹی ڈیپازٹ اور کنکشن فیس کا تعین کرے گا۔ سالانہ کوٹے کا 50 فیصد حصہ ارجنٹ فیس پر کنکشنز کے لیے مختص ہوگا، جو فیس جمع کرانے کے 3 ماہ کے اندر فراہم کیے جائیں گے۔
پرانے مقامی گیس کنکشنز کی میرٹ لسٹ کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے، اور صرف آر ایل این جی کے لیے نئی میرٹ لسٹ بنائی جائے گی۔ سوئی کمپنیاں اب مقامی گیس کے نئے کنکشنز کی درخواستیں قبول نہیں کریں گی، صرف آر ایل این جی کی درخواستیں لی جائیں گی۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ سے منقطع شدہ صارفین کو دوبارہ کنکشن ملنے پر آر ایل این جی پر منتقل کر دیا جائے گا، جبکہ موجودہ مقامی گیس کنکشنز کو بدستور حکومتی منظور شدہ ٹیرف پر ہی بل بھیجا جائے گا۔
مہنگا انتخاب مگر ضروری قدم
اوگرا کے نوٹیفائی شدہ موجودہ ٹیرف کے مطابق، نئے صارفین کو آر ایل این جی 4 ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو (بشمول سیلز ٹیکس) پر فراہم کی جائے گی، جو ہر ماہ تبدیل ہوگی۔ اس کے مقابلے میں، گھریلو صارفین کے لیے اوسط مقامی گیس ریٹ تقریباً 2 ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے، جو آر ایل این جی کو دوگنا مہنگا بنا دیتا ہے۔ نئی کنکشن فیس 40 ہزار سے 50 ہزار روپے ہوگی اور صارفین کو اوگرا کے مقررہ آر ایل این جی نرخ پر بل بھیجا جائے گا، جو اس وقت تقریباً 3 ہزار 300 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے—سیلز ٹیکس سمیت یہ قیمت 4000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
سیپٹمبر 2025 کے لیے اوگرا نے آر ایل این جی کی قیمتیں مزید بڑھا دی ہیں، جو سوئی ناردرن کے لیے ٹرانسمیشن پر 11.2365 ڈالر اور ڈسٹری بیوشن پر 12.0127 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہیں، جبکہ سوئی سدرن کے لیے 9.8619 اور 11.0105 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہیں۔
موجودہ چیلنجز
فی الحال، 35 لاکھ سے زائد نئی کنکشنز کی درخواستیں سوئی کمپنیوں کے پاس التوا میں ہیں، جو اس پالیسی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ نئے کنکشنز سے اگرچہ کمپنیوں کو بنیادی ڈھانچے پر ریٹرن کا موقع ملتا ہے، لیکن اس سے گیس کے نقصانات بڑھتے ہیں، ریکوریز کم ہوتی ہیں اور سردیوں میں قلت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
اس وقت لاہور میں ایس این جی پی ایل سردیوں سے پہلے ہی گیس کی راشننگ کر رہا ہے اور گھریلو صارفین کو دن میں صرف 6 سے 9 گھنٹے گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ گیس کنکشنز پر پابندی 2009 میں لگائی گئی تھی، جو 6 سال بعد جزوی طور پر ہٹائی گئی، اور 2022 میں دوبارہ نافذ کر دی گئی تھی۔ یہ نئی پالیسی عوامی مطالبات کی ایک کامیابی ہے، مگر آر ایل این جی کی مہنگائی صارفین کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔
یہ نئی گیس پالیسی پاکستان کی توانائی کی دنیا میں ایک اہم موڑ ہے، جو آر ایل این جی کی اضافی فراہمی کو جذب کرنے کی کوشش تو کرتی ہے مگر مقامی گیس کی قلت اور مہنگائی کے مسائل کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔ کابینہ کا فیصلہ عوامی مطالبات کی عکاسی کرتا ہے، جہاں 35 لاکھ التوائیں صارفین کی بے چینی کو ظاہر کرتی ہیں، مگرآر ایل این جی کی دوگنی قیمت (4 ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو) غریب اور متوسط طبقے کے لیے بوجھ بنے گی، جو مقامی گیس (2 ہزار روپے) سے کہیں مہنگی ہے۔
40-50 ہزار روپے کی کنکشن فیس اور سکیورٹی ڈپازٹ کی نئی شرائط ترجیحی صارفین کے لیے بھی چیلنج ہیں، جبکہ پرانی 25 ہزار روپے کی فیس کی نسبت یہ اضافہ معیشت پر دباؤ ڈالے گا۔ آر ایل این جی کی اضافی درآمدات (جیسے قطر سے) کو گھریلو استعمال میں ڈھالنا ایک عارضی حل ہے، مگر مقامی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ناگزیر ہے تاکہ آر ایل این جی پر انحصار کم ہو۔
راشننگ جیسے مسائل جیسے لاہور میں 6-9 گھنٹے کی گیس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نئے کنکشنز سے قلت مزید بڑھ سکتی ہے، جو سردیوں میں بحران کو گہرا کرے گی۔ مجموعی طور پر، یہ پالیسی بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی کا موقع تو دیتی ہے مگر صارفین کی معاشی صلاحیت کو نظر انداز کرتی ہے حکومت کو آر ایل این جی کی قیمتوں پر سبسڈی اور مقامی گیس کی تلاش کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ فیصلہ عوامی فلاح کا سبب بنے نہ کہ نئی مہنگائی کا۔





















