لاہور:پنجاب حکومت نے غیر ہنر مند مزدوروں کی کم از کم اجرت کو 40 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کے فیصلے کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے جامع اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل لیبر ویلفیئر پنجاب سیدہ کلثوم حئی نے تمام سرکاری، نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنز، اتھارٹیز اور دیگر متعلقہ اداروں کو باضابطہ مراسلہ جاری کر دیا ہے، جس میں کم اجرت دینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ اقدام ملازمین کے حقوق کے تحفظ اور معاشی انصاف کی جانب ایک اہم قدم ہے، جو صوبے کی معیشت کو مزید مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
ڈی جی لیبر ویلفیئر سیدہ کلثوم حئی نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ پنجاب کم از کم اجرت ایکٹ 2019ء کے تحت کیا گیا ہے، جس کے سیکشن 11 کے مطابق کوئی بھی آجر پرائیویٹ یا سرکاری سطح پر مطلع شدہ شرح سے کم اجرت ادا نہیں کر سکتا۔ مراسلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ ایل ڈی اے (لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی)، واسا (واٹر اینڈ سینٹریشن اتھارٹی)، پی ایچ اے (پنجاب ہائی وے اتھارٹی)، کارپوریشنز اور دیگر اتھارٹیز کو فوری طور پر اس فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ غیر ہنر مند مزدوروں کی کم از کم اجرت 40 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، اور اس سے کم اجرت دینا ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پرنسپل آجر ذاتی طور پر ذمہ دار ہوگا کہ کم از کم اجرت کے نفاذ پر مکمل عمل درآمد کرائے۔ براہ راست بھرتی ہونے والے ملازمین کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداروں کے ذریعے ملازمت دینے والے کیسز میں بھی کم از کم اجرت کی ادائیگی لازمی ہوگی۔ پنجاب حکومت نے لیبر قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا واضح عندیہ دے دیا ہے، جس میں جرمانے، قانونی چارہ جواری اور دیگر سزائیں شامل ہو سکتی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف مزدور طبقے کی معاشی حالت کو بہتر بنائیں گے بلکہ ان کی زندگی کے معیار کو بلند کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کریں گے۔
سیدہ کلثوم حئی نے زور دے کر کہا کہ ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات تیز کر دیے گئے ہیں، اور حکومت کا عزم ہے کہ ہر سطح پر انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ یہ فیصلہ صوبے بھر میں ہزاروں مزدوروں کو فائدہ پہنچائے گا، جو اب تک کم اجرت کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار تھے۔ حکومتی افسران کا کہنا ہے کہ یہ اقدام معاشی ترقی، غربت کے خاتمے اور سماجی انصاف کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہے، جو پنجاب کو ایک مثالی فلاحی ریاست بنانے میں مدد دے گا۔
پس منظر
پاکستان، خاص طور پر پنجاب میں، مزدور طبقہ معاشی عدم مساوات اور مہنگائی کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ برسوں میں افراط زر کی شرح میں اضافے اور زندگی کے اخراجات میں اضافے نے کم اجرت والے مزدوروں کی حالت کو مزید خراب کر دیا ہے۔ پنجاب کم از کم اجرت ایکٹ 2019ء کا اجرا اسی تناظر میں ہوا تھا، جو صوبائی حکومت کو ہر سال کم از کم اجرت کی شرح کا تعین کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ 2024 میں یہ شرح 32 ہزار روپے تک بڑھائی گئی تھی، لیکن موجودہ معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 2025 کے لیے 40 ہزار روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ وفاقی سطح پر بھی کم از کم اجرت کی شرح (25 ہزار روپے) سے زیادہ ہے، جو صوبائی خودمختاری اور مزدور دوست پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ تاریخی طور پر، پاکستان میں مزدور حقوق کی تحریکوں، جیسے کہ 1970 کی دہائی کی جدوجہد، نے ایسی پالیسیوں کی بنیاد رکھی، اور آج یہ اقدام ان تحریکوں کا تسلسل ہے۔ پنجاب حکومت کا یہ قدم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs)، خاص طور پر SDG 8 (شائستہ کام اور معاشی ترقی) سے ہم آہنگ ہے، جو غربت کے خاتمے اور عادلانہ تنخواہوں کو فروغ دیتا ہے۔
تفصیلی مثبت تجزیہ
پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ ایک مثبت اور دور اندیش اقدام ہے، جو نہ صرف مزدور طبقے کی فوری امداد کرے گا بلکہ طویل مدتی معاشی استحکام کو بھی یقینی بنائے گا۔ 40 ہزار روپے کی کم از کم اجرت کا نفاذ ہزاروں خاندانوں کی آمدنی میں اضافہ لائے گا، جو مہنگائی کے عالمی بحران میں ان کی بقا کو آسان بنائے گا۔ یہ اقدام صارفین کی قوت خرید بڑھا کر مقامی معیشت کو متحرک کرے گا، کیونکہ مزدور اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ضروری اشیا پر خرچ کریں گے، جو روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گا۔
مثبت پہلو یہ ہے کہ سرکاری اور نیم خودمختار اداروں پر سختی سے عمل درآمد کا حکم، جیسے کہ ایل ڈی اے، واسا اور پی ایچ اے میں، ایک ایسا پیغام دیتا ہے کہ حکومت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ ٹھیکیداروں کے ذریعے ملازمتوں میں بھی کم از کم اجرت کی لازمی ادائیگی سے غیر رسمی شعبے میں شفافیت آئے گی، جو اکثر استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ ڈی جی لیبر ویلفیئر سیدہ کلثوم حئی کی قیادت میں یہ اقدامات خواتین اور نوجوان مزدوروں کے حقوق کو بھی مضبوط کریں گے، جو صوبے کی آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔





















