لاہور/لندن: پاکستانی یوٹیوب سٹار اور سوشل میڈیا انفلوئنسر رجب بٹ ایک بار پھر شدید تنازعے کی زد میں آ گئے ہیں، جہاں ایک مشہور ٹک ٹاکر فاطمہ خان نے ان پر شراب نوشی، ہم جنس پرستی اور متعدد ناجائز تعلقات کے سنگین الزامات عائد کر دیے ہیں۔ فاطمہ خان نے ایک حالیہ پوڈکاسٹ میں ان الزامات کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس ویڈیو ثبوت موجود ہیں، جو وہ کسی بھی وقت عوام کے سامنے پیش کر سکتی ہیں۔ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے، جہاں صارفین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے، اور یہ الزامات رجب بٹ کی پہلے سے جاری قانونی اور ذاتی تنازعات کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔
ٹک ٹاکر فاطمہ خان، جو خود ایک مقبول انفلوئنسر ہیں اور لاکھوں فالوورز رکھتی ہیں، نے ’’نیو ڈیجیٹل‘‘ کے ایک پوڈکاسٹ میں اپنے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ان کے مطابق، ان کی رجب بٹ سے پہلی ملاقات ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ہوئی تھی، جس نے فاطمہ کو اپنی بہن کے طور پر متعارف کرایا تھا۔ ملاقات کے وقت وہاں دیگر افراد بھی موجود تھے، جو اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں۔ فاطمہ خان کا دعویٰ ہے کہ رجب بٹ نے انہیں شادی کے جھوٹے وعدوں سے دھوکہ دیا، اور ان کے درمیان متعدد بار جنسی تعلقات قائم ہوئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ رجب بٹ نے انہیں قیمتی تحائف دیے، جن میں تقریباً 39 لاکھ روپے کی مالیت والی ایک مہنگی گھڑی بھی شامل تھی، جو ان کے استعمال کی ایک کوشش تھی۔
فاطمہ خان نے الزام لگایا کہ رجب بٹ شراب نوشی کے شدید عادی ہیں اور نشے کی حالت میں اکثر تشدد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، رجب بٹ نہ صرف متعدد خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتے رہے بلکہ اپنے قریبی مرد ساتھیوں کے ساتھ بھی غیر مناسب اور ناجائز تعلقات استوار کیے ہیں، جو ہم جنس پرستی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ "رجب بٹ ایسے غلط شخص ہیں جو لڑکی کے بغیر ایک رات بھی نہیں رہ سکتے، وہ ہر وقت گھر سے باہر رہتے ہیں، اور ان کا کام ہی یہی ہے۔” فاطمہ نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس رجب بٹ کی نامناسب ویڈیوز سمیت ٹھوس شواہد موجود ہیں، جن میں ان کے مرد ساتھیوں کے ساتھ ناجائز سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر رجب بٹ نے معافی نہ مانگی تو وہ یہ ویڈیوز منظر عام پر لا دیں گی، جو ان کی زندگی اور کیریئر کو ختم کر دیں گی۔
یہ الزامات کوئی نئی بات نہیں ہیں؛ گزشتہ کئی ہفتوں سے فاطمہ خان رجب بٹ کے خلاف بیانات دے رہی ہیں، اور انہوں نے پہلے بھی جنسی استحصال، تشدد اور شادی کے جھوٹے وعدوں کا ذکر کیا تھا۔ ان کے مطابق، ایک موقع پر رجب بٹ نے ان کی ذاتی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے کی کوشش کی، جس دوران انہیں تھپڑ مارا اور ان کے چہرے پر نشانات پڑ گئے، لیکن وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ فاطمہ خان کا کہنا ہے کہ رجب بٹ جنس اور عمر کا فرق نہیں دیکھتے، اور ان کی یہ سرگرمیاں ایک منظم پیٹرن کا حصہ ہیں۔
یاد رہے کہ رجب بٹ کا نام پہلے بھی متعدد تنازعات سے جڑا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کے قریبی دوستوں – حیدر شاہ، مان ڈوگر اور شہزی – کی نازیبا ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں، جن میں انہیں برہنہ حالت میں دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ ویڈیوز ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز پر تیزی سے پھیل گئیں، اور صارفین نے سوال اٹھایا کہ یہ ویڈیوز آخر بنائی ہی کیوں گئیں؟ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کئی پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ ان لیک ہونے والی ویڈیو کالز میں سے ایک میں حیدر شاہ براہ راست رجب بٹ کے ساتھ رابطے میں تھے اور انہیں اپنا جسم دکھا رہے تھے۔ اس کے علاوہ، رجب بٹ پر زارا ملک کے ساتھ قربت کے الزامات بھی لگے، جہاں ان کی دبئی میں مشترکہ ویڈیوز اور ایک جیسی ڈریسنگ نے شکوک و شبہات کو ہوا دی۔
رجب بٹ اور ان کے دوستوں کا موقف ہے کہ یہ تمام ویڈیوز ان کے موبائل ڈیٹا کو ہیک کرنے کے نتیجے میں لیک ہوئی ہیں، اور یہ ان کی مرضی کے بغیر وائرل کی گئیں تاکہ انہیں بدنام کیا جائے۔ رجب بٹ نے ایک الگ پوڈکاسٹ میں فاطمہ خان کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "فاطمہ خان کے تمام بیانات سراسر بے بنیاد ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں۔” رجب بٹ نے مزید کہا کہ میڈیا اور پوڈکاسٹرز ایسے جھوٹے دعووں کو غیر ضروری طور پر اہمیت دے کر ان کے خلاف منفی تاثر پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر انہوں نے مہنگے تحائف دیے تو ان کی کوئی رسید یا ثبوت کیوں نہیں پیش کیا گیا؟ رجب بٹ، جو فی الحال لندن میں اپنی بیوی ایمان اور بیٹے کے ساتھ مقیم ہیں، نے کہا کہ یہ الزامات ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں، لیکن وہ اپنے ناظرین کو تفریحی مواد فراہم کرتے رہیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ "مجھ پر الزام لگانے والی لڑکیوں کی کوئی اہمیت نہیں، انہیں پوڈکاسٹرز والے فالتو کی اہمیت دے کر انہیں بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں۔”
سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زبردست وائرل ہو رہا ہے، جہاں #RajabButt، #FatimaKhan اور #ViralVideo جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ ایکس پر متعدد صارفین نے فاطمہ خان کی حمایت میں پوسٹس شیئر کی ہیں، جبکہ کچھ نے رجب بٹ کی تردید کو درست قرار دیا ہے۔ ایک پوسٹ میں نجی اخبار نے فاطمہ خان کے الزامات کو ہیڈ لائن بنایا ہے، جو لاکھوں ویوز حاصل کر چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی ذاتی زندگیوں کی اخلاقی ذمہ داری کو اجاگر کرتا ہے، اور اس کا حل قانونی کارروائی سے ہی ممکن ہے۔ رجب بٹ کے خلاف پہلے سے چل رہے کیسز کی وجہ سے وہ پاکستان واپس نہیں آ سکے، اور یہ نئے الزامات ان کی قانونی پوزیشن کو مزید کمزور کر سکتے ہیں۔
فاطمہ خان کی جانب سے مزید انکشافات کا امکان ہے، جبکہ رجب بٹ کے فینز ان کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ معاملہ پاکستانی سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ رہا ہے، جہاں انفلوئنسرز کی ساکھ اور ذمہ داری مرکزی موضوع بن گئی ہے۔
یہ تنازعہ، اگرچہ سنگین اور متنازعہ ہے، پاکستانی سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک مثبت موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جو انفلوئنسرز کی ذاتی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو اجاگر کرتا ہے اور متاثرین کے لیے انصاف کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ فاطمہ خان جیسے متاثرین کی آواز بلند ہونا نہ صرف ہمت کی علامت ہے بلکہ #MeToo کی طرز پر ایک مقامی تحریک کا آغاز بھی ہو سکتا ہے، جو خواتین اور دیگر متاثرین کو اپنے حقوق کی بات کرنے کا حوصلہ دے گا۔ یہ الزامات، اگر ثابت ہو جائیں تو، رجب بٹ جیسے مشہور شخصیات کو اپنی سرگرمیوں پر غور کرنے پر مجبور کریں گے، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مزید سخت ضابطے نافذ کرنے کی طرف دھکیل دیں گے۔
سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ ویڈیو ثبوت جیسے ٹھوس شواہد کی دھمکی متاثرین کو بااختیار بناتی ہے، جو پہلے خاموش رہنے پر مجبور تھے۔ فاطمہ خان کا پوڈکاسٹ میں تفصیل سے بیان کرنا نہ صرف ان کی ہمت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ دوسری خواتین کو بھی اپنی کہانیاں شیئر کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے، جو مجموعی طور پر سماجی اصلاح کا باعث بنے گا۔ رجب بٹ کی تردید اور ہیکنگ کا دعویٰ بھی مثبت ہے، کیونکہ یہ قانونی عمل کو متحرک کرتا ہے – اگر ہیکنگ ثابت ہوئی تو یہ سائبر کرائم کے خلاف ایک مثال قائم کرے گا، جبکہ اگر الزامات درست نکلے تو یہ انفلوئنسرز کی اخلاقی تربیت کی ضرورت کو واضح کرے گا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ہیش ٹیگز اور بحثیں ایک صحت مند مکالمے کی بنیاد رکھ رہی ہیں، جہاں صارفین نہ صرف الزامات پر بات کر رہے ہیں بلکہ ذاتی حدود، رضامندی اور تشدد کی روک تھام جیسے اہم موضوعات پر غور کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ پاکستانی نوجوانوں کو یہ سکھا سکتا ہے کہ شہرت کی دوڑ میں اخلاقیات کو کبھی نظر انداز نہ کریں، اور متاثرین کی حمایت ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ قانونی طور پر، یہ کیسز عدالتوں تک پہنچنے پر جنسی استحصال اور ہم جنس پرستی جیسے حساس مسائل پر قوانین کی تشریح کو بہتر بنائیں گے، جو سماج کی ترقی کی طرف ایک قدم ہوگا۔
مجموعی طور پر، یہ تنازعہ ایک بحران تو ہے، مگر اس کی مثبت جہت یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا کو ایک ذمہ دار پلیٹ فارم بنانے کی طرف لے جا رہا ہے۔ فاطمہ خان کی آواز اور رجب بٹ کی تردید دونوں ہی انصاف کی تلاش کا حصہ ہیں، اور اگر یہ معاملہ منصفانہ حل ہوا تو یہ نہ صرف اندرونی اصلاح لائے گا بلکہ پاکستانی سوشل میڈیا کو ایک محفوظ اور اخلاقی جگہ میں تبدیل کر دے گا – ایک ایسا ماحول جہاں شہرت ذمہ داری کے ساتھ آئے، اور متاثرین کی آواز کبھی دبائی نہ جائے۔





















