اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اہم رد و بدل کا اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 4 روپے 7 پیسے کا بڑا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ وزارت خزانہ کی جانب سے عالمی تیل کی مارکیٹ کی صورتحال، کرنسی کی قدر اور دیگر مالیاتی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، جو پاکستانی معیشت پر اضافی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ نئی قیمتیں 1 اکتوبر سے نافذ العمل ہوں گی اور اگلے 15 دن تک برقرار رہیں گی، جو آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (او جی آر اے) کی سفارشات پر مبنی ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق، پیٹرول کی قیمت میں 4 روپے 7 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا ہے اور پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 264 روپے 61 پیسے سے بڑھا کر 268 روپے 68 پیسے فی لیٹر مقرر کر دی گئی ہے۔ یہ اضافہ گزشتہ 15 دن کے مقابلے میں ایک نمایاں تبدیلی ہے، جہاں پیٹرول کی قیمت مستحکم رکھی گئی تھی، اور اب یہ اضافہ عام شہریوں کی روزمرہ کی زندگی، خاص طور پر ٹرانسپورٹ اور کاروبار پر اثر انداز ہوگا۔ وزارت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ یہ فیصلہ عالمی خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کی صورتحال کی بنیاد پر کیا گیا ہے، جو درآمدات کی لاگت کو بڑھا رہا ہے۔
اسی طرح، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے 4 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا ہے، جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 276 روپے 81 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے جو کہ 272 روپے 77 پیسے فی لیٹر تھی۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل، جو ٹرکس، بسوں اور زرعی آلات میں استعمال ہوتا ہے، کی یہ اضافہ شدہ قیمت زرعی اور ٹرانسپورٹ سیکٹر پر براہ راست اثر ڈالے گی، جہاں مال کی ترسیل اور کھیتی باڑی کی لاگت میں اضافہ متوقع ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں دیگر پیٹرولیم مصنوعات جیسے لائٹ ڈیزل، کیرو سین اور ایل پی جی کی قیمتیں بھی اس جائزہ میں شامل تھیں، جو مستحکم رکھی گئی ہیں، تاکہ مہنگائی کی شرح کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہوگا اور اگلے 15 دن کے لیے لاگو رہیں گی۔ یہ ہر ماہ کی 15 اور 30 تاریخ کو ہونے والے جائزے کا حصہ ہے، جو او جی آر اے کی طرف سے وزارت کو بھیجا جاتا ہے اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد نافذ کیا جاتا ہے۔ موجودہ جائزہ میں، عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 2 ڈالر اضافہ ہے، جبکہ روپے کی قدر 281.94 ڈالر کے قریب مستحکم ہے، مگر معمولی اتار چڑھاؤ درآمداتی بل کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، بجٹ 2025-26 میں پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) اور کسٹمز ڈیوٹی میں اضافہ بھی اس اضافے کا ایک عنصر ہے۔
یہ اضافہ پاکستانی معیشت کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید اہمیت کا حامل ہے، جہاں افراط زر کی شرح 12 فیصد سے زائد ہے اور ٹرانسپورٹ سیکٹر 70 فیصد پیٹرول پر منحصر ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی تازہ رپورٹ کے مطابق، ایندھن کی قیمتیں مہنگائی میں 5 فیصد اضافے کا باعث بن رہی ہیں، خاص طور پر خوراک اور ٹرانسپورٹ کی لاگت میں۔ 60 فیصد گھرانوں میں پیٹرول سے چلنے والی گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں، جو اس اضافے سے براہ راست متاثر ہوں گے۔ ٹرانسپورٹ مالکان کے اتحاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سبسڈی یا ٹیکس میں کمی کی جائے، مگر وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بین الاقوامی معاہدوں اور آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے مطابق ہے۔
عالمی سطح پر، سعودی عرب اور دیگر تیل برآمد کرنے والے ممالک کی پالیسیاں بھی اس اضافے کو متاثر کر رہی ہیں، جہاں خام تیل کی برآمدات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان، جو پیٹرولیم مصنوعات کا 80 فیصد درآمد کرتا ہے، ان تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ عارضی ہو سکتا ہے، مگر عوام کو بجٹ پلاننگ اور ایندھن کی بچت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ او جی آر اے نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سرکاری قیمتیں چیک کریں اور بلیک مارکیٹنگ کی شکایت کریں۔
حکومت کا یہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، اگرچہ فوری طور پر عام شہریوں کے لیے بوجھ بنتا ہے، پاکستانی معیشت کے طویل مدتی استحکام اور مالیاتی نظم و ضبط کی جانب ایک مثبت اور ذمہ دارانہ قدم ہے، جو عالمی معاہدوں کی تعمیل، ٹیکس آمدنی میں اضافہ اور مارکیٹ کی حقیقت پسندی کو یقینی بناتا ہے۔ سب سے پہلے، یہ اضافہ آئی ایم ایف کے 7 بلین ڈالر کے قرض پروگرام کی شرائط کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، جو پاکستان کی معاشی بحالی کی بنیاد ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو 10 بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف حاصل کرنے میں معاون ہوگا۔ اس سے حکومت کو پیٹرول ڈیولپمنٹ لیوی اور کسٹمز ڈیوٹی کے ذریعے اضافی آمدنی حاصل ہوگی، جو انفراسٹرکچر، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دے گی، اور افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے فنانشل پالیسیوں کو مضبوط بنائے گی۔
عالمی مارکیٹ کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے میں مدد دے گا، کیونکہ درآمدات کی لاگت کو سرکاری سبسڈی سے ڈھانپنے کی بجائے مارکیٹ بیسڈ ایڈجسٹمنٹ سے نمٹنا مالیاتی خسارے کو روکتا ہے، جو گزشتہ برسوں میں 500 ارب روپے سے زائد کا بوجھ بن چکا تھا۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں اضافہ زرعی سیکٹر کو متاثر تو کرے گا، مگر یہ ٹرانسپورٹ کی موثر استعمال اور متبادل ایندھن جیسے سی این جی اور الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی کو تیز کرے گا، جو ماحولیاتی تحفظ اور توانائی کی بچت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹس کے مطابق، ایندھن کی قیمتیں 5 فیصد مہنگائی کا باعث بنتی ہیں، مگر یہ اضافہ مجموعی طور پر معاشی ترقی کی شرح کو 3.5 فیصد تک بڑھانے میں مدد دے گا، کیونکہ یہ ٹیکس بیس کو وسیع کرتا ہے اور قرض کی ادائیگی کو ممکن بناتا ہے۔
عوامی سطح پر، یہ قدم بجٹ پلاننگ کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے، جہاں 60 فیصد گھرانوں کو ایندھن کی بچت اور عوامی ٹرانسپورٹ کی طرف راغب کرے گا، جو ٹریفک جام اور آلودگی کو کم کرے گا۔ زرعی شعبے میں، اگرچہ لاگت بڑھے گی، مگر حکومت کی طرف سے سبسڈائزڈ فرٹیلائزر اور ٹیکس چھوٹ اسے متوازن کرے گی، جو پیداوار میں اضافہ لائے گی۔ طویل مدتی فوائد میں، یہ مارکیٹ کی شفافیت کو بڑھاتا ہے، جہاں او جی آر اے کی ماہانہ جائزہ کی پالیسی قیمتیں مستحکم رکھتی ہے اور کرپشن کو روکتی ہے۔
مجموعی طور پر، یہ اضافہ ایک مثبت موڑ ہے جو پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کی راہ ہموار کرتا ہے، جہاں قلیل مدتی تکلیف طویل مدتی خوشحالی کی ضمانت دیتی ہے – ایک ایسا منظر نامہ جہاں مستحکم معیشت، کم قرض اور بہتر سہولیات سے قوم کی فلاح حاصل ہو، اور ایندھن کی قیمتیں ترقی کی بنیاد بنیں نہ کہ بوجھ





















