غزہ کی ناکہ بندی کو توڑنے اور انسانی امداد پہنچانے کی کوشش میں عالمی سطح پر منظم گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی بحریہ کے حملے نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت تقریباً 200 سے زائد انسانی حقوق کے حامیوں، پارلیمنٹیرینز، وکلاء اور صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جبکہ فلوٹیلا کی متعدد کشتیاں اسرائیلی فورسز نے قبضے میں لے لیں۔ یہ واقعہ غزہ کے ساحل سے تقریباً 70 سے 90 ناٹیکل میل دور پیش آیا، جہاں اسرائیلی بحری جہازوں نے فلوٹیلا کا گھیراؤ کر لیا اور فوجی اہلکاروں نے جہازوں پر چڑھائی کر دی۔
فلوٹیلا کا مشن
گلوبل صمود فلوٹیلا، جو یورپی اور عرب ممالک کے کارکنوں کی مشترکہ کاوش ہے، غزہ کے محاصرے کو چیلنج کرنے اور ادویات، خوراک اور دیگر امدادی سامان پہنچانے کے لیے منظم کیا گیا تھا۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق، فلوٹیلا میں 40 سے زائد کشتیاں شامل تھیں، جن پر تقریباً 500 مسافر سوار تھے۔ یہ قافلہ بحیرہ روم کے مختلف بندرگاہوں سے روانہ ہوا تھا اور غزہ کی جنگ زدہ آبادی تک امداد پہنچانے کا عزم رکھتا تھا۔
اسرائیلی فورسز نے فلوٹیلا کو غزہ کے قریب پہنچنے سے روکنے کے لیے پیشگی وارننگز جاری کی تھیں، جن میں کہا گیا کہ یہ ایک فعال جنگی علاقہ ہے اور ناکہ بندی کی خلاف ورزی ہوگی۔ تاہم، فلوٹیلا انتظامیہ نے ان خبرداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا۔ رات گئے کے وقت، جب فلوٹیلا غزہ سے تقریباً 75 میل دور تھا، اسرائیلی بحریہ نے 20 سے زائد جنگی جہازوں کے ساتھ حملہ کیا۔ فلوٹیلا کی ایک اہم کشتی ‘الما’ پر گریٹا تھنبرگ سوار تھیں، جسے سب سے پہلے روک لیا گیا۔ دیگر متاثرہ کشتیوں میں ڈیر یاسین، ہگا، اسپیکٹر، ادارا اور سیرئس شامل ہیں، جبکہ تقریباً 30 کشتیاں اب بھی غزہ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
فلوٹیلا کی اسٹیئرنگ کمیٹی کی رکن یاسمین آقار نے واقعے سے قبل ایک بیان میں کہا کہ "اسرائیلی بحری جہازوں نے الما کو گھیر لیا ہے، اور ہم پرامن طور پر روکے جانے کو تیار ہیں، لیکن یہ انسانی ہمدردی کی خلاف ورزی ہے۔” فلوٹیلا کے ایک مسافر خوسے لوئس یبوت نے لائیو ویڈیو میں بتایا کہ "ہمارے ارد گرد دو درجن سے زائد اسرائیلی جہاز موجود ہیں، اور وہ ہمیں گرفتار کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔” اسرائیلی فورسز نے جہازوں پر چڑھائی کرتے ہوئے کیمروں کو بند کر دیا اور مسافروں کو حراست میں لے لیا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کا موقف اور ویڈیو شواہد
اسرائیلی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "صمود فلوٹیلا کی کشتیوں کو بحفاظت روک لیا گیا ہے، اور مسافر اسرائیلی بندرگاہ اشدود منتقل کیے جا رہے ہیں۔ وزارت نے ایک ویڈیو بھی شیئر کی، جس میں گریٹا تھنبرگ کو فوجی اہلکاروں کے گھیرے میں دکھایا گیا ہے، جہاں ایک نیول افسر انہیں راستہ بدلنے اور اشدود جانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ویڈیو میں تھنبرگ کو پرسکون دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ فوجی اہلکار انہیں پانی اور جیکٹ فراہم کر رہے ہیں۔ وزارت نے مزید کہا کہ گریٹا اور ان کے ساتھی محفوظ اور تندرست ہیں، اور امداد کو اسرائیلی چینلز کے ذریعے غزہ پہنچانے کی پیشکش کی۔
تاہم، فلوٹیلا انتظامیہ نے اس پیشکش کو سختی سے مسترد کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلوں کے مطابق انسانی امداد کو روکنا غیر قانونی ہے، اور یہ اقدام فلسطینی عوام کی نسل کشی میں مددگار ہے۔ فلوٹیلا نے الزام لگایا کہ اسرائیلی فورسز نے ڈرون حملوں کا بھی استعمال کیا، حالانکہ اسرائیلی فوج نے اس کی تردید کی ہے۔
گرفتار کارکنوں کی تعداد اور ان کے بیانات
اسرائیلی حکام کے مطابق، 200 سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں یورپ، امریکہ، برازیل اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ گرفتار ہونے والوں کو اشدود بندرگاہ منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں انہیں ملک بدر کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ فلوٹیلا کے مطابق، تمام مسافر غیر مسلح تھے اور ان کا مقصد صرف امداد پہنچانا تھا۔
فلوٹیلا میں شامل امریکی کارکن لیلیٰ ہیگزی کا ایک پہلے سے ریکارڈ کیا گیا ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، جس میں انہوں نے کہا: "اگر آپ یہ ویڈیو دیکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی فوج نے مجھے اغوا کر لیا ہے۔ یہ کارروائی غیر قانونی ہے۔ میں عالمی برادری اور امریکی حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ فلسطینی عوام کی نسل کشی میں اسرائیل کی حمایت ختم کریں اور تمام کارکنوں کی محفوظ واپسی کو یقینی بنائیں۔” گریٹا تھنبرگ نے بھی انٹاگرام پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ "میں الما جہاز پر ہوں، اور اسرائیل ہمیں روکنے والا ہے،” جو اب حراست کے بعد مزید توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
عالمی ردعمل
اس واقعے نے دنیا بھر میں شدید مذمت کی لہر پیدا کر دی ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے اسرائیلی ہم منصب سے بات چیت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ کارکنوں کے خلاف تشدد نہیں کیا جائے گا، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ گرفتار افراد کو ملک بدر کیا جائے گا۔ اٹلی کی سب سے بڑی لیبر یونین نے فلوٹیلا کی حمایت میں جمعہ کو قومی ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ "اسرائیل جان بوجھ کر غزہ میں خوراک، ادویات اور ضروری سامان کو روک رہا ہے، جس سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔”
اٹلی کے شہروں روم، میلان، ٹورن، جنیوا، ناپلز اور پیزا میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، جنہوں نے ٹرین سروسز روک دیں اور ٹریفک جام کر دیا۔ کولمبیا کے صدر نے اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کر دیا، کیونکہ فلوٹیلا میں دو کولمبیائی شہری گرفتار ہوئے۔ اسپین کے وزیر اعظم نے فلوٹیلا کی حمایت کی، جبکہ اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے اسے "امریکی صدر ٹرمپ کی غزہ حل تجویز کو نقصان پہنچانے والا” قرار دیا۔
امریکہ کی کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) نے اسے "بین الاقوامی قزاقی اور ریاست کی دہشت گردی” قرار دیا، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گرفتاریوں کو "غیر قانونی” کہا۔ فلسطینی گروپ فریڈم فلوٹیلا کوئلیشن نے مطالبہ کیا کہ تمام گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے۔
پس منظر
یہ واقعہ غزہ کی 18 سالہ اسرائیلی ناکہ بندی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جو 2007 سے جاری ہے اور حالیہ جنگ نے اسے مزید شدت دے دی ہے۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسفیکیشن نے غزہ سٹی میں قحط کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ ایندھن اور طبی امداد کی کمی سے شہری حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ گلوبل صمود فلوٹیلا اسی بحران کا جواب ہے، جو مئی 2025 میں ڈرون حملوں اور جون میں ایک چھوٹے جہاز ‘میڈلین’ پر قبضے جیسے واقعات کے بعد منظم کیا گیا۔
2010 میں ایک فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے میں نو کارکن ہلاک ہوئے تھے، جو اس تنازع کی شدت کی یاد دلاتا ہے۔ فلوٹیلا انتظامیہ کا کہنا ہے کہ باقی کشتیاں غزہ کی طرف بڑھ رہی ہیں، اور یہ مہم "نسل کشی کی روایت کو چیلنج کرنے” کے لیے جاری رہے گی۔
اہم واقعات کا خلاصہ جدول
| پہلو | تفصیلات |
|---|---|
| فلوٹیلا کی تعداد | 40+ کشتیاں، 500 مسافر |
| حملہ کا مقام | غزہ سے 70-90 ناٹیکل میل دور |
| گرفتار افراد | 200+، بشمول گریٹا تھنبرگ |
| اسرائیلی جہاز | 20+ بحری جہاز |
| عالمی ردعمل | اٹلی میں ہڑتال، مظاہرے؛ کولمبیا میں سفارت کار بدر |
| امداد کا نوعیت | ادویات، خوراک، طبی سامان |
انسانی ہمدردی بمقابلہ جیو پولیٹیکل تناؤ
اس واقعہ نے فلسطینی بحران کی گہرائی کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے، جہاں انسانی امداد کی کوششوں کو فوجی طاقت سے روکنا نہ صرف اخلاقی طور پر متنازع ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ گریٹا تھنبرگ جیسی عالمی شہرت یافتہ شخصیت کی گرفتاری نے اسے ایک میڈیا اسٹارم بنا دیا ہے، جو غزہ کی بھول جانے والی کہانی کو دوبارہ سامنے لا رہی ہے۔ اسرائیل کا موقف کہ امداد کو اپنے چینلز سے پہنچایا جائے، منطقی لگتا ہے، لیکن فلوٹیلا کی تنقید کہ یہ ناکہ بندی کو برقرار رکھنے کی چال ہے، وزن رکھتی ہے – خاص طور پر جب غزہ میں قحط اور بچوں کی اموات کی رپورٹس سامنے آ رہی ہوں۔
یہ حملہ مشرق وسطیٰ کے جیو پولیٹیکل تناؤ کو مزید گہرا کر سکتا ہے، جہاں یورپی ممالک کی حمایت فلسطینیوں کے لیے ایک نئی امید پیدا کر رہی ہے، جبکہ اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی اسے تنہائی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اگر عالمی برادری، بشمول اقوام متحدہ، فوری مداخلت نہ کی تو یہ واقعہ مزید تشدد کی بنیاد بن سکتا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ انسانی ہمدردی کی فتح یا شکست کا امتحان ہے، جو بتاتا ہے کہ جنگ کے وقت میں پرامن مزاحمت کتنی مشکل ہو سکتی ہے۔





















