وزیراعظم شہباز شریف کا گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے پر شدید ردعمل

یہ اسرائیلی جارحیت ایک وحشیانہ عمل ہے، جسے فوری طور پر روکنا چاہیے

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ کے لیے امدادی قافلے، گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی بحریہ کے حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے "بزدلانہ اور وحشیانہ” اقدام قرار دیا ہے۔ اس حملے میں 44 ممالک سے تعلق رکھنے والے 450 سے زائد انسانی حقوق کے کارکنوں اور امدادی رضاکاروں کو حراست میں لیا گیا، جن میں معروف سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کا بیان

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک تفصیلی بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ فلوٹیلا پر حملہ ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل ہے، جس کا واحد مقصد غزہ کے مظلوم فلسطینی عوام تک بنیادی امداد کی ترسیل کو روکنا تھا۔ انہوں نے کہا ان کارکنوں کا واحد ‘جرم’ یہ تھا کہ وہ جنگ زدہ غزہ کے عوام کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیا لے کر جا رہے تھے۔ یہ اسرائیلی جارحیت ایک وحشیانہ عمل ہے، جسے فوری طور پر روکنا چاہیے۔”

شہباز شریف نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے بنیادی انسانی امداد کی بلا روک ٹوک ترسیل کو یقینی بنائے۔ انہوں نے زور دیا کہ "امن کو ایک موقع دیا جائے اور امداد ہر حال میں ضرورت مندوں تک پہنچنی چاہیے۔” ان کا یہ بیان نہ صرف پاکستانی موقف کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تشویش کو بھی اجاگر کرتا ہے، جہاں غزہ میں جاری انسانی بحران دن بہ دن گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی "کھلی خلاف ورزی” قرار دیا۔ ایکس پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلوٹیلا کو روکنا اور کارکنوں کو حراست میں لینا عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلوں کے منافی ہے، جو انسانی امداد کی ترسیل پر کسی بھی قسم کی پابندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔

اسحاق ڈار نے چار نکاتی مطالبات پیش کیے:

  1. غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔

  2. غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔

  3. حراست میں لیے گئے تمام کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے۔

  4. انسانی امداد کی ترسیل میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کی جدوجہد کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا، جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

فلوٹیلا حملے کا پس منظر

گلوبل صمود فلوٹیلا یورپی اور عرب ممالک کے کارکنوں کی ایک مشترکہ کوشش ہے، جو غزہ پر عائد 18 سالہ اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے اور جنگ سے متاثرہ عوام تک امداد پہنچانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ فلوٹیلا میں 40 سے زائد کشتیاں شامل تھیں، جو خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامان سے لدی ہوئی تھیں۔ یہ قافلہ غزہ سے تقریباً 70 سے 90 ناٹیکل میل دور تھا جب اسرائیلی بحریہ نے اسے گھیر لیا اور فوجی اہلکاروں نے جہازوں پر چڑھائی کر دی۔

اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ فلوٹیلا کو "بحفاظت” روکا گیا اور امداد کو ان کے اپنے چینلز کے ذریعے غزہ پہنچایا جائے گا۔ تاہم، فلوٹیلا انتظامیہ نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناکہ بندی کو برقرار رکھنے کی ایک چال ہے۔ فلوٹیلا کی اسٹیئرنگ کمیٹی کی رکن یاسمین آقار نے کہا کہ "یہ حملہ انسانی ہمدردی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے، اور ہم اپنا مشن جاری رکھیں گے۔”

عالمی ردعمل اور پاکستانی موقف

اس واقعے نے دنیا بھر میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ اٹلی میں قومی ہڑتال اور مظاہروں کا اعلان کیا گیا، جبکہ کولمبیا نے اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی اور یورپی انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی اسے "ریاستی دہشت گردی” اور "بین الاقوامی قزاقی” قرار دیا ہے۔

پاکستان کا یہ ردعمل اس کے دیرینہ موقف کی عکاسی کرتا ہے، جو فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور ان کے بنیادی حقوق کی بحالی کی حمایت میں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان نہ صرف اس واقعے کی مذمت کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی اس بحران سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔

اہم نکات کا خلاصہ جدول

پہلو

تفصیلات

واقعہ

گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی بحریہ کا حملہ

کارکنوں کی تعداد

450+، 44 ممالک سے تعلق رکھنے والے

گرفتار افراد

200+، بشمول گریٹا تھنبرگ

پاکستانی ردعمل

وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی شدید مذمت

مطالبات

جنگ بندی، محاصرہ ختم، کارکنوں کی رہائی، امداد کی بلا روک ٹوک ترسیل

فلوٹیلا کا مقصد

غزہ کے لیے خوراک، ادویات اور ضروری سامان کی ترسیل

 پاکستان کا موقف اور عالمی تناظر

وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بیانات سے پاکستان کا فلسطینی عوام کے ساتھ گہرا تعلق اور ان کے لیے غیر متزلزل حمایت واضح ہوتی ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ نہ صرف ایک انسانی بحران بلکہ بین الاقوامی قانون کے احترام کا امتحان ہے۔ پاکستان کا یہ موقف کہ امداد کی ترسیل کو روکنا غیر انسانی اور غیر قانونی ہے، عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں سے ہم آہنگ ہے، جو غزہ میں ناکہ بندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔

تاہم، اس ردعمل کے باوجود، پاکستان اور دیگر ممالک کے لیے چیلنج یہ ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کو اس معاملے پر عملی اقدامات اٹھانے کے لیے کیسے قائل کیا جائے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اور اس کی جیو پولیٹیکل حمایت اسے ایسی کارروائیوں سے روکنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستانی قیادت کا یہ بیان ایک سیاسی اور اخلاقی بیان ہے، جو عالمی سطح پر فلسطینی عوام کی آواز کو بلند کرنے کی کوشش ہے۔

یہ واقعہ غزہ کے جاری بحران کو ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے، جہاں قحط، طبی امداد کی کمی اور بچوں کی اموات ایک سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اگر عالمی برادری فوری اقدامات نہ اٹھاتی ہے تو یہ تنازع مزید گہرا ہو سکتا ہے، جو مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہوگا۔ پاکستان کا یہ واضح موقف نہ صرف اس کی خارجہ پالیسی کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر انسانی ہمدردی کے لیے ایک مضبوط آواز کے طور پر بھی ابھرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین