بادشاہت نہیں جو چاہیں کریں، قانون دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے،جسٹس منصور علی شاہ

ایس ایچ او تھانے کا کرتا دھرتا ہوتا ہے، کسی عام شہری کو بلاوجہ تھانے میں بند کرنا زیادتی ہے، جسٹس عقیل عباسی

اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمعرات کے روز ایک اہم کیس کی سماعت ہوئی، جس میں اختیارات کے غلط استعمال کے الزام میں برطرف کیے گئے تھانہ ڈھڈیال، راولپنڈی کے سابق ایس ایچ او یاسر محمد کی اپیل پر غور کیا گیا۔ سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس عقیل عباسی بھی شامل تھے۔ عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

کیس کی تفصیلات

سابق ایس ایچ او یاسر محمد کو دو خواتین سمیت چار شہریوں کو حبس بیجا میں رکھنے کے الزامات کے بعد برطرف کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل عمیر بلوچ نے موقف اپنایا کہ ان کے موکل کو دیگر پولیس اہلکاروں کی غلطی کی سزا دی گئی، جبکہ وہ خود بے قصور ہیں۔ وکیل نے استدلال کیا کہ یاسر محمد ایک جوان شخص ہیں اور ان کی پوری زندگی ابھی ان کے سامنے ہے، لہٰذا ان کے ساتھ نرمی برتی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو کوئی باضابطہ شکایت درج کی گئی اور نہ ہی کوئی گواہ ان کے موکل کے خلاف بیانات دے رہا ہے۔

تاہم، عدالت نے اس موقف پر سخت رویہ اپنایا۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ ایک ایس ایچ او تھانے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اس کی نگرانی میں کسی عام شہری کو بلا وجہ حراست میں رکھنا سنگین زیادتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تھانے کے کرتا دھرتا ہونے کے ناطے ایس ایچ او کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت عملے کے اقدامات کی نگرانی کرے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں قانون کی بالادستی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "ہماری کوئی بادشاہت نہیں کہ جو چاہیں کر دیں، ہمیں قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے۔” انہوں نے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تمام گواہیاں درخواست گزار کے خلاف ہیں، جس سے ان کے الزامات کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدالت جذبات یا ہمدردی کی بنیاد پر نہیں بلکہ شواہد اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔

عدالت کا فیصلہ اور آئندہ کی کارروائی

سپریم کورٹ نے فریقین سے مزید دلائل طلب کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیے اور کیس کی سماعت کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدالت اس معاملے کو گہرائی سے دیکھنا چاہتی ہے اور تمام حقائق و شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی حتمی فیصلہ سنائے گی۔

قانون کی بالادستی اور عوامی اعتماد کا تحفظ

یہ کیس پاکستان کے عدالتی نظام میں قانون کی بالادستی اور اداروں کی شفافیت کو یقینی بنانے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس سے واضح ہوتا ہے کہ عدالت اپنے فیصلوں میں غیر جانبداری اور قانون کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہے۔ ان کا یہ بیان کہ "ہماری کوئی بادشاہت نہیں” نہ صرف عدالتی نظام کے وقار کو ظاہر کرتا ہے بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے عزم کو بھی عکاسی کرتا ہے۔

حبس بیجا جیسے سنگین الزامات پولیس کے اختیارات کے غلط استعمال کی ایک واضح مثال ہیں، جو کہ شہریوں کے اعتماد کو متاثر کرتے ہیں۔ عدالت کا سخت رویہ اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا عزم اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ پولیس جیسے اہم اداروں میں احتساب کا عمل جاری رہے گا۔ یہ اقدام پبلک سیکٹر میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

مزید برآں، اس کیس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق، خصوصاً غیر قانونی حراست سے تحفظ، کو اولین ترجیح دیتی ہے۔ جسٹس عقیل عباسی کے ریمارکس کہ "بلا وجہ حراست میں رکھنا زیادتی ہے” اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پولیس کو اپنے اختیارات کا استعمال انتہائی ذمہ داری سے کرنا چاہیے۔ اس طرح کے مقدمات سے پولیس اصلاحات کی ضرورت بھی اجاگر ہوتی ہے، تاکہ عام شہریوں کے ساتھ زیادتیوں کو روکا جا سکے۔

یہ کیس مستقبل میں پولیس اہلکاروں کے لیے ایک مثال قائم کر سکتا ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ، جب بھی آئے گا، نہ صرف درخواست گزار کے مستقبل کا تعین کرے گا بلکہ پولیس کے اندر احتساب کے نظام کو مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ اقدام عوام میں عدالتی نظام پر اعتماد بحال کرنے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین