امریکا نے یوکرین کو میزائل حملوں کیلیے انٹیلی جنس دینے کا فیصلہ کرلیا

ٹرمپ انتظامیہ اس کے ساتھ ہی یوکرین کو مزید طاقتور ہتھیار بھیجنے پر غور کر رہی ہے

یوکرین-روس تنازع میں ایک نئی موڑ سامنے آ گیا ہے، جہاں امریکہ نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل حملوں کے لیے انٹیلی جنس فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ روسی توانائی کے بنیادی ڈھانچے اور دیگر اسٹریٹجک اہداف کو نشانہ بنانے میں یوکرین کی مدد کرے گا، جو جنگ کے تین سالہ دور میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ امریکی حکام نے نہ صرف یہ معاونت فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے بلکہ نیٹو اتحادیوں سے بھی یوکرین کو اسی نوعیت کی انٹیلی جنس اور ہتھیاروں کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے، جو تنازع کو مزید شدت دے سکتا ہے۔

روسی معیشت کو کمزور کرنے کا ہدف

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں وائٹ ہاؤس نے یوکرین کو روسی توانائی کی تنصیبات جیسے تیل کی ریفائنریز، پائپ لائنز اور بجلی گھروں پر حملوں کے لیے خفیہ معلومات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ انٹیلی جنس سیٹلائٹ تصاویر، نگرانی کے ڈیٹا اور دیگر خفیہ ذرائع پر مبنی ہوگی، جو یوکرین کو روسی سرحد سے دور اہداف کو درست نشانہ بنانے میں مدد دے گی۔ یہ اقدام یوکرین کی حالیہ ڈرون حملوں کی کامیابی کو مزید مؤثر بنانے کا حصہ ہے، جہاں روس کی 38 میں سے 21 ریفائنریز کو پہلے ہی نقصان پہنچ چکا ہے، جس سے روسی تیل کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ اس کے ساتھ ہی یوکرین کو مزید طاقتور ہتھیار بھیجنے پر غور کر رہی ہے، جن میں ٹوماہاک کروز میزائلز (رینج 2,500 کلومیٹر) اور دیگر ایئر لانچڈ میزائلز شامل ہیں، جو ماسکو اور یورپی روس کے بیشتر حصوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یوکرین نے خود بھی ‘فلیمنگو’ نامی لانگ رینج میزائل تیار کیا ہے، جو ابتدائی مرحلے میں پیداوار میں ہے، لیکن امریکی معاونت اس کی صلاحیت کو بڑھا دے گی۔ یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ملاقات کے بعد سامنے آیا، جہاں ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ یوکرین روس کی معاشی مشکلات کی وجہ سے اپنی تمام زمین واپس لے سکتا ہے۔

نیٹو اتحادیوں پر دباؤ

امریکی حکام نے نیٹو کے اتحادی ممالک سے بھی یوکرین کو اسی طرح کی انٹیلی جنس اور ہتھیار فراہم کرنے کی اپیل کی ہے، تاکہ روسی حملوں کا موثر مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا ہے جب روس نے یوکرین کے شہروں پر بیلسٹک میزائلوں کے حملے تیز کر دیے ہیں، جو امریکی پیتریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دے رہے ہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے، جو مارچ میں تجویز کردہ 30 دنہ جنگ بندی کے بعد ایک واضح تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔

یوکرین کی طرف سے اس فیصلے کا استقبال ہوا ہے، جہاں زیلنسکی نے کہا ہے کہ یہ انٹیلی جنس روسی حملوں کو روکنے اور امن کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ہوگی۔

روسی ردعمل

کریملن کے ترجمان دمٹری پیسکوف نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ پہلے سے ہی یوکرین کو باقاعدہ انٹیلی جنس فراہم کر رہا ہے، اور ٹوماہاک میزائلوں کی فراہمی روس کی طرف سے "نئی شدت” کا باعث بنے گی۔ روس نے خبردار کیا ہے کہ اگر نیٹو ممالک یوکرین کو ایسے ہتھیار دیتے ہیں جو روسی علاقوں پر حملہ کریں، تو وہ ان ممالک کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ بیان روس کی طرف سے ہائپرسونک میزائلوں کے استعمال کی یاد دلاتا ہے، جو ماضی میں امریکی میزائلوں کے جواب میں فائر کیے گئے تھے۔

تنازع کا پس منظر

روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر مکمل حملہ کیا، جسے اس نے "خصوصی فوجی آپریشن” قرار دیا، جبکہ کی ویو اور یورپی اتحادی اسے علاقائی توسیع کی کوشش سمجھتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں یوکرین نے روسی ریفائنریز پر ڈرون حملے کئے، جو روسی معیشت کو کمزور کرنے کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ کی یہ پالیسی تبدیلی امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد سامنے آئی ہے، جہاں روس شہروں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔

اہم تفصیلات کا خلاصہ جدول

پہلو

تفصیلات

امریکی معاونت

روسی توانائی ڈھانچے (ریفائنریز، پائپ لائنز، بجلی گھر) پر انٹیلی جنس

ہتھیاروں کی غور

ٹوماہاک میزائلز (رینج 2,500 کلومیٹر)، دیگر ایئر لانچڈ میزائلز

نیٹو کا مطالبہ

اتحادیوں سے یوکرین کو اسی نوعیت کی انٹیلی جنس اور ہتھیار فراہم کریں

روسی ردعمل

شدید تناؤ اور جوابی حملوں کی دھمکی

یوکرینی میزائل

فلیمنگو (ابتدائی پیداوار میں)

تنازع کی شروعات

فروری 2022، روس کی طرف سے "خصوصی فوجی آپریشن"

 تنازع میں امریکی مداخلت کا نیا دور اور ممکنہ نتائج

یہ امریکی فیصلہ یوکرین-روس جنگ میں ایک اہم موڑ ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کی ابتدائی جنگ بندی کی کوششوں سے ہٹ کر ہے اور روسی معیشت کو براہ راست نشانہ بنانے کی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔ انٹیلی جنس کی یہ فراہمی یوکرین کو روسی علاقوں میں گہرے حملے کرنے کی صلاحیت دے گی، جو روس کی تیل کی برآمدات (جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی ہے) کو مزید متاثر کر سکتی ہے اور کریملن کی آمدنی کو کمزور بنا سکتی ہے۔ تاہم، یہ اقدام تناؤ کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے، جہاں روس کی جوابی کارروائی نیٹو ممالک کو براہ راست خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

ٹرمپ کا یہ قدم زیلنسکی کی درخواستوں کا نتیجہ ہے، جو امن مذاکرات کو مضبوط کرنے کے لیے ہتھیاروں کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن یہ روس کی طرف سے "جنگ کی نئی سطحکا باعث بن سکتا ہے۔ عالمی سطح پر، یہ فیصلہ نیٹو کی یکجہتی کو جانچے گا، جہاں یورپی ممالک کو امریکی مطالبات پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر ٹوماہاک میزائلز کی منظوری ہوئی تو یہ جنگ کو یورپی روس تک پھیلا سکتا ہے، جو امن کی بجائے مزید تصادم کی طرف لے جائے گا۔ مجموعی طور پر، یہ امریکی مداخلت کی حکمت عملی کی تبدیلی ہے، جو یوکرین کی فتح کی امید بڑھاتی ہے لیکن علاقائی سلامتی کے لیے نئے خطرات پیدا کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین