بھارت :جرائم کی شرح میں خطرناک اضافہ، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو رپورٹ نے ہلچل مچادی

غیر ذمہ دار مودی حکومت اس صورتحال پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے

نئی دہلی:بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے دور میں جرائم کی شرح ایک انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے عام شہری اپنے آپ کو مکمل طور پر بے یار و مددگار محسوس کرنے لگے ہیں۔ بھارت اب شہریوں کے استحصال کا مرکز بن چکا ہے، جبکہ غیر ذمہ دار مودی حکومت اس صورتحال پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی حکمرانی کے دوران قتل، زیادتی، اغوا اور چوری جیسے جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو ملک میں ایک سنگین سماجی بحران کی ابتدائی نشانیاں ظاہر کر رہے ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تازہ ترین رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارت میں جرائم کی مجموعی شرح میں 7.2 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اور اس سال 62 لاکھ سے زائد جرائم کے کیسز درج ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ملک کی قانون نافذ کرنے والے نظام کی ناکامی اور حکومتی بے عملی کو واضح طور پر اجاگر کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، سائبر کرائم کیسز کی تعداد 86 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جو ڈیجیٹل دور میں عوام کی مالی اور ذاتی سلامتی کو شدید خطرات میں ڈال رہی ہے۔ اسی طرح، جعل سازی، دھوکہ دہی، فراڈ اور بلیک میلنگ جیسے جرائم سے متعلق ایک لاکھ 81 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں، جو معاشی استحکام کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت بھر میں اغوا کے 7 لاکھ 9 ہزار 880 سے زائد کیسز درج ہوئے ہیں، جو سماجی امن کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر، شادی پر مجبور کرنے کے لیے نابالغ لڑکیوں کے اغوا کے 14,637 واقعات رونما ہوئے، جو لڑکیوں کی حفاظت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ معاشی جرائم کے شعبے میں بھی 2 لاکھ 4 ہزار 973 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں کرپشن، منی لانڈرنگ اور دیگر مالی فراڈ شامل ہیں، جو ملک کی معیشت کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔

بچوں کے خلاف جرائم کی صورتحال تو اور بھی تشویشناک ہے۔ NCRB رپورٹ کے مطابق، اس شعبے میں 9.2 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا، اور 1 لاکھ 77 ہزار سے زائد کیسز درج کیے گئے۔ ان میں سے 40 ہزار سے زائد بچے اور بچیں جنسی زیادتی جیسے سنگین جرائم کا شکار بنے، جو معاشرے کی سب سے کمزور طبقے کی حفاظت میں حکومتی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف والدین کی پریشانیوں کو بڑھا رہے ہیں بلکہ مستقبل کی نسلوں کی نفسیاتی اور جسمانی صحت کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعت کانگریس نے اس رپورٹ کو ‘شرمناک’ قرار دیتے ہوئے مودی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔ کانگریس کے ترجمانوں نے NCRB رپورٹ کو سوشل میڈیا اور پریس کانفرنسز میں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ‘دن دیہاڑے قتل، گینگ وار، ڈکیتی، اغوا اور تاوان کی مانگ اب ریاست کی پہچان بن چکی ہے’۔ ان کا الزام ہے کہ انتہا پسند مودی کی سرپرستی میں ریاستی ادارے مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں مصروف ہیں، اور نااہل مودی کی ناقص حکمرانی اور اقدامات نے بھارتی عوام کی زندگیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ کانگریس لیڈرز نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر جامع جرائم کنٹرول پالیسی نافذ کرے، پولیس فورس کو جدید بنائے اور مجرمانہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

یہ رپورٹ بھارت کی 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے جمع کیے گئے ڈیٹا پر مبنی ہے، جو دکھاتی ہے کہ شہری علاقوں میں جرائم کی شرح دیہی علاقوں سے 20 فیصد زیادہ ہے۔ خاص طور پر، اتر پردیش، مہاراشٹرا اور دہلی جیسے بڑے صوبوں میں جرائم کی شرح قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے، جہاں سیاسی عدم استحکام اور معاشی عدم مساوات کو اس کی بڑی وجوہات قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے بعد معاشی دباؤ اور بے روزگاری نے جرائم کو مزید ہوا دی ہے، جبکہ سائبر کرائم میں اضافے کی وجہ سمارٹ فونز کی بڑھتی ہوئی استعمال اور آگاہی کی کمی ہے۔

حکومت کی طرف سے اب تک کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن گزشتہ سالوں میں لانچ کیے گئے ‘سفٹ پولیسنگ’ اور ‘ویمن ہیلپ لائنز’ جیسے پروگرامز کو مؤثر قرار دیا جاتا رہا ہے، حالانکہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ان کی تاثیر محدود رہی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام صرف کاغذوں تک محدود ہیں اور حقیقی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

مثبت تجزیہ: جرائم کی روک تھام کی طرف امید کی کرنیں اور ممکنہ حل
اگرچہ NCRB کی رپورٹ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کو ایک سنگین چیلنج کے طور پر پیش کرتی ہے، تاہم اس صورتحال کو ایک موڑ پر دیکھا جا سکتا ہے جہاں مثبت تبدیلیاں ممکن ہیں۔ بھارت جیسے متنوع اور وسیع ملک میں جرائم کا اضافہ ایک الارم ہے، لیکن یہ بھی ایک موقع ہے کہ سماجی، معاشی اور تکنیکی اصلاحات کو تیز کیا جائے۔ سب سے پہلے، حکومت کی جانب سے جرائم کنٹرول کے لیے جاری کوششوں کو مزید مؤثر بنانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، ‘سائبر سوان’ اور ‘پرزر دیو’ جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مزید وسعت دی جائے، جو پہلے ہی ہزاروں سائبر فراڈ کیسز کو روک چکے ہیں۔ NCRB کے ڈیٹا کی بنیاد پر، سائبر کرائم میں 86 ہزار کیسز کے باوجود، آگاہی مہمات اور AI بیسڈ نگرانی سے یہ شرح 30-40 فیصد تک کم کی جا سکتی ہے، جیسا کہ سنگاپور اور آسٹریلیا میں دیکھا گیا ہے۔

بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے (9.2 فیصد) کو روکنے کے لیے، تعلیم اور کمیونٹی بیسڈ پروگرامز کو ترجیح دی جائے۔ سکولوں میں ‘سیفٹی ایجوکیشن’ کو لازمی نصاب کا حصہ بنانا، جو بچوں کو ابتدائی طور پر خطرات سے آگاہ کرے، ایک مثبت قدم ہوگا۔ اس کے علاوہ، پولیس فورس کی تربیت اور تعداد میں اضافہ – جو فی الحال 1.5 ملین سے کم ہے – جرائم کی فوری رپورٹنگ اور تفتیش کو بہتر بنا سکتا ہے۔ معاشی جرائم (2 لاکھ 4 ہزار کیسز) کو کنٹرول کرنے کے لیے، ڈیجیٹل لین دین کی شفافیت بڑھانا اور ‘انڈر رپورٹنگ’ کو کم کرنے والی پالیسیاں جیسے ‘ون نیشن ون پولیس’ کو نافذ کرنا، ملک کی معیشت کو مستحکم کرے گا۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تنقید کے باوجود، بین الпарٹی تعاون ایک مثبت راستہ ہو سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں NCRB رپورٹ پر بحث کرانا، جہاں تمام فریقین حل پیش کریں، سماجی بحران کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ عوامی سطح پر، این جی اوز اور کمیونٹی گروپس کی شمولیت سے ‘نیبرہوڈ واچ’ پروگرامز چلائے جائیں، جو اغوا اور چوری جیسے مقامی جرائم کو 20 فیصد تک کم کر سکتے ہیں۔ آخر میں، بھارت کی نوجوان آبادی (65 فیصد سے زائد) کو روزگار اور ہنر کی تربیت دے کر بے روزگاری کو کم کرنا، جرائم کی جڑ کو کاٹے گا۔ یہ اقدامات نہ صرف اعداد و شمار کو بہتر بنائیں گے بلکہ ‘واقعی ویشوا گرو’ بننے کی راہ ہموار کریں گے، جہاں امن اور انصاف ہر شہری کا حق ہو۔ اگر فوری اور مربوط اقدامات کیے جائیں تو 2025-26 تک جرائم کی شرح میں نمایاں کمی ممکن ہے، جو ملک کی ترقی کی بنیاد مضبوط کرے گی۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین