پاکستانی شوبز انڈسٹری کی ایک کامیاب ترین ستارہ عائشہ عمر نے ایک حالیہ انٹرویو میں اپنے ابتدائی کیریئر کی تلخ یادوں کو شیئر کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انہیں متعدد مردوں کی طرف سے حدود پار کرنے کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بیان نہ صرف ان کی ذاتی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انڈسٹری میں خواتین کی محفوظ ماحول کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ عائشہ، جو ‘بلوچ’، ‘تنہائیوں’ اور ‘کارگروں’ جیسی مشہور ڈراموں سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکی ہیں، نے ایک نئے سوشل میڈیا کامڈی شو میں اپنے تجربات کا کھل کر ذکر کیا، جو اب سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے
ابتدائی کیریئر کی چیلنجز
عائشہ عمر نے شو کے دوران بتایا کہ جب انہوں نے 2006 میں شو بیز میں قدم رکھا تو کم عمری اور ان کی فطری طور پر خوش مزاج اور کھلے پن کی وجہ سے لوگ انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔ انہوں نے کہا: "شوبز میں داخل ہونے کے فوراً بعد مجھے کئی مردوں کی طرف سے حدوں کو عبور کرنے کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے مرد حضرات حدیں کراس کرنے کی کوشش کرتے تھے، اور اس دوران مجھے خود کو انتہائی مضبوط اور پر اعتماد ظاہر کرنا پڑتا تھا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں کمزور یا لاچار ہوں۔
یہ انکشاف عائشہ کی 2020 کی انٹرویوز سے ملتا جلتا ہے، جہاں انہوں نے پہلے بھی ہراسانی کا ذکر کیا تھا لیکن نام نہ بتانے کی وجہ بتائی تھی کہ وہ اس وقت تک تیار نہیں تھیں۔ اب، 2025 میں، وہ مزید کھل کر بات کر رہی ہیں، جو #MeToo موومنٹ کی پاکستان میں جاری لہر کی عکاسی کرتا ہے۔ عائشہ نے مزید کہا کہ لاہور سے کراچی منتقل ہونے کے بعد، جہاں وہ اکیلی رہنے لگیں، یہ صورتحال اور بھی مشکل ہو گئی کیونکہ معاشرہ اکیلی لڑکیوں کو کمزور سمجھتا ہے۔
‘نان سینس’ رویہ
ان تجربات سے نمٹنے کے لیے عائشہ نے ایک ‘نان سینس’ یعنی سنجیدہ اور سخت گیر رویہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے وضاحت کی: "میں نے یہ رویہ اس لیے اپنایا تاکہ لوگ مجھے سنجیدگی سے لیں اور کوئی بھی غلط فہمی نہ پیدا ہو۔ یہ میرے لیے ایک ڈھال کی طرح کام آیا، خاص طور پر جب میں نے پروڈیوسنگ میں قدم رکھا اور مزید ذمہ داریاں سنبھالیں۔” یہ تبدیلی ان کی شخصیت کی مضبوطی کی نشاندہی کرتی ہے، جو آج انہیں ایک کامیاب پروڈیوسر اور اداکارہ بناتی ہے۔
عائشہ کا یہ بیان انڈسٹری میں خواتین کی جدوجہد کو اجاگر کرتا ہے، جہاں 2020 میں میشا شفیٰ کے الزامات کے بعد بھی ہراسانی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ عائشہ نے خود بھی 2020 میں راجر میک گووان کے ساتھ انٹرویو میں ہراسانی کا شکار ہونے کا اعتراف کیا تھا، جہاں انہوں نے کہا کہ وہ کبھی اس ‘مونسٹر’ کا نام نہیں لیں گی لیکن بات ضرور کریں گی۔
کیریئر کی غلطیوں کا اعتراف
شو کے دوران عائشہ نے اپنے کیریئر کی کچھ غلطیوں کا بھی ذکر کیا، جو ان کی شفافیت کی مثال ہے۔ انہوں نے بتایا: "ماضی میں میں نے کئی ایوارڈ شوز کیے جن کی مکمل ادائیگیاں آج تک نہیں ملیں۔ یہ میری ابتدائی غلطی تھی کہ میں نے معاہدوں کو اچھی طرح نہیں پڑھا، اور اب مجھے اس کا افسوس ہے۔” یہ اعتراف ان کی ابتدائی جدوجہد کے دوران کی عدم تجربہ کاری کی عکاسی کرتا ہے، جب وہ صرف 25 سال کی تھیں اور انڈسٹری کی پیچیدگیوں سے ناواقف تھیں۔
عائشہ نے یہ باتیں اس وقت شیئر کیں جب وہ اپنے کیریئر کے ابتدائی چیلنجوں پر بحث کر رہی تھیں، جو ان کی ترقی کی کہانی کو مزید دلچسپ بناتی ہیں۔ آج، وہ ‘بلوچ’ جیسے پروجیکٹس کی پروڈیوسر ہیں اور انڈسٹری میں ایک مضبوط آواز کے طور پر سامنے آئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
عائشہ کے اس انٹرویو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گئی ہے، جہاں ہزاروں فالوورز نے ان کی ہمت کی تعریف کی ہے۔ ایک فین نے لکھا: "عائشہ کی بات سن کر دل بھر آیا، انڈسٹری کو بدلنے کی ضرورت ہے۔” دوسری طرف، کچھ نے ان کی خاموشی پر سوال اٹھائے، کہتے ہوئے کہ نام لینا چاہیے تاکہ انصاف ہو۔ یہ بحث #MeTooPakistan کو دوبارہ زندہ کر رہی ہے، جہاں خواتین کی آوازوں کو سننے کی اپیل کی جا رہی ہے
عائشہ عمر کا یہ انکشاف شوبز انڈسٹری میں ہراسانی کی ایک مسلسل حقیقت کو اجاگر کرتا ہے، جو 2020 کے #MeToo موومنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔ ان کی ابتدائی جدوجہد کم عمری، اکیلا پن اور مردوں کی غلط فہمیاں – نئی آنے والی خواتین اداکاراؤں کی کہانیوں سے ملتی ہے، جو اکثر کمزور سمجھی جاتی ہیں۔ ‘نان سینس’ رویہ اپنانا ایک ذاتی حکمت عملی تو ہے، لیکن یہ انڈسٹری کی سطح پر HR پالیسیاں، ہراسانی کے خلاف قوانین اور محفوظ کام کے ماحول کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
عائشہ کی غلطیوں کا اعتراف ان کی نشوونما کی عکاسی کرتا ہے، جو نئی نسل کو خبردار کرتا ہے کہ معاہدوں اور حدود کی حفاظت اہم ہے۔ یہ بیان نہ صرف ان کی ہمت کی مثال ہے بلکہ انڈسٹری کو تبدیل کرنے کی دعوت بھی، جہاں آوازیں اٹھانے والوں کو سہارا ملے نہ کہ تنقید۔ اگر ایسے انکشافات جاری رہے تو #MeToo کی لہر مزید طاقتور ہوگی، اور شوبز ایک محفوظ جگہ بن سکتا ہے۔ عائشہ جیسی ستاروں کی جدوجہد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کامیابی کی قیمت کتنی بھاری ہو سکتی ہے، اور تبدیلی کی راہ کتنی لمبی۔





















