افغان کپتان ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم کہلانے پر برہم

اگر مستقبل میں ہم اچھی کارکردگی نہ دکھائیں تو یقیناً تیسرے، چوتھے یا پانچویں نمبر پر ہوں گے

افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان راشد خان نے ‘ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم’ کے متنازع لقب پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے، جو میڈیا کی طرف سے عائد کیا گیا اور اب اس پر مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ایشیا کپ 2025 میں گروپ مرحلے سے باہر ہونے کے باوجود افغان ٹیم کو چیمپیئن بھارت کے بعد فیورٹ سمجھا جا رہا تھا، لیکن بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ہاتھوں شکست نے ان کی توقعات پر پانی پھیر دیا۔ راشد خان نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ یہ ٹیگ انہوں نے خود نہیں دیا بلکہ ماضی کی شاندار کارکردگیوں کی بنیاد پر میڈیا نے یہ لیبل لگایا، اور اب ناکامی پر اسے مذاق کا موضوع بنا دیا گیا ہے۔

ایشیا کپ 2025 کی ناکامی

ایشیا کپ 2025، جو متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، میں افغانستان کو گروپ بی میں جگہ ملی تھی جہاں انہیں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور ہانگ کانگ جیسے حریفوں کا سامنا کرنا تھا۔ افغان ٹیم نے صرف ہانگ کانگ کے خلاف ایک فتح حاصل کی، جبکہ بنگلہ دیش سے سنسنی خیز 9 رنز کی ہار اور سری لنکا سے 6 وکٹوں کی بڑی شکست نے انہیں سپر فور سے باہر کر دیا۔ یہ ناکامی اس لیے بھی تکلیف دہ تھی کیونکہ پچھلے چند انٹرنیشنل ایونٹس میں افغان کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی دکھائی تھی، جہاں پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی ٹیمیں غیر یقینی نظر آ رہی تھیں۔ بھارت نے فائنل میں پاکستان کو 5 وکٹوں سے ہرا کر ٹائٹل جیتا، جبکہ سری لنکا نے بھی گروپ مرحلے میں اچھی کرکٹ کھیلی۔

راشد خان نے اس ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی میچز کی کمی کی وجہ سے آہنگی میں کمی کا سامنا کیا۔ انہوں نے بتایا: "ایشیا کپ سے پہلے ہم نے زیادہ ٹی ٹوئنٹی میچز نہیں کھیلے، جس کی وجہ سے ہماری باؤلنگ اٹیک کنڈیشنز کے مطابق پرفارم نہ کر سکی اور بیٹنگ بھی معیار پر پورا نہ اتری۔” یہ بیان ٹیم کی تیاریوں کی کمزوریوں کو اجاگر کرتا ہے، جو اب اگلے سال کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاریوں میں مددگار ثابت ہوگا۔

‘ایشیا کی نمبر ٹو’ ٹیگ پر ردعمل

راشد خان نے پریس کانفرنس میں میڈیا کے اس ٹیگ پر برہمی کا اظہار کیا، جو بنگلہ دیش کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے پہلے ہوئی۔ انہوں نے کہا: "ایک بات میڈیا میں بار بار چل رہی ہے کہ لوگ ہمیں ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم کہتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا، لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں ہم نے عمدہ کارکردگی دکھائی جس کی وجہ سے یہ ٹیگ ملا۔” انہوں نے ماضی کی کامیابیوں کا حوالہ دیا، جیسے 2023 آئی سی سی ورلڈ کپ میں بڑی ٹیموں کو ہرانا، 2024 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل، اور 2025 چیمپئنز ٹرافی میں انگلینڈ پر فتح۔

راشد نے مزید کہا: "اگر مستقبل میں ہم اچھی کارکردگی نہ دکھائیں تو یقیناً تیسرے، چوتھے یا پانچویں نمبر پر ہوں گے، لیکن یہ ٹائٹل ہم نے خود کو کبھی نہیں دیا۔” انہوں نے مذاق اڑانے والوں پر تنقید کی: "کبھی آپ اچھا کھیلتے ہیں تو کبھی برا، یہ کھیل کا حصہ ہے۔ سوچ ہمیشہ مثبت رکھنی چاہیے، لیکن لوگ اس پر مذاق اڑاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آج کل جتنا آپ کسی کا مذاق اڑائیں، لوگ آپ کو اتنا پسند کرتے ہیں، لیکن یہ اچھا نہیں لگتا۔” یہ بیان افغان ٹیم کی ذہنی صحت اور میڈیا کی ذمہ داری کو اجاگر کرتا ہے۔

مستقبل کی تیاریاں

راشد خان نے ایشیا کپ کی ناکامی کو ایک ‘پاز’ قرار دیا، نہ کہ رکاوٹ، اور کہا کہ ٹیم اب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026 کی تیاریوں پر مرکوز ہے، جو بھارت اور سری لنکا میں کھیلا جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ ہر میچ مقابلہ ہے اور ٹیم متوازن اور بھوکے کھلاڑیوں کی تلاش میں ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز، جو شارجہ میں شروع ہو رہی ہے، اس کی پہلی آزمائش ہوگی، جہاں بنگلہ دیش کے کپتان لٹن داس کی عدم موجودگی افغانوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔

افغانستان کی حالیہ کامیابیوں نے انہیں ایشیا میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت بنا دیا ہے، جہاں انہوں نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، پاکستان، انگلینڈ اور سری لنکا جیسی ٹیموں کو ہرایا ہے۔ تاہم، ایشیا کپ جیسی ناکامیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

 افغان کرکٹ کا عروج اور میڈیا کی ذمہ داری

راشد خان کا یہ بیان افغان کرکٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی کی عکاسی کرتا ہے، جو 2010 کی دہائی سے ICC ایونٹس میں حیرت انگیز کارکردگی دکھا رہی ہے۔ ایشیا کپ 2025 کی ناکامی ایک عارضی پسپائی ہے، جو ٹیم کی تیاریوں کی کمی کو ظاہر کرتی ہے، لیکن ماضی کی فتوحات – جیسے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو ہرانا – انہیں ایشیا میں بھارت کے بعد مضبوط چیلنجر بناتی ہیں۔

تاہم،نمبر ٹوٹیگ پر مذاق میڈیا کی سطحی رپورٹنگ کی نشاندہی کرتا ہے، جو کامیابیوں پر تعریف تو کرتی ہے لیکن ناکامیوں پر تنقید کو مذاق میں بدل دیتی ہے۔ راشد کی ناراضگی کھلاڑیوں کی ذہنی صحت کے لیے اہم ہے، جو #MentalHealthInSports کی عالمی بحث کو جوڑتی ہے۔ مستقبل میں، اگر افغانستان متوازن ٹیم بنائے تو T20 WC 2026 میں سیمی فائنل یا فائنل کی امید ہے، جو پاکستان اور بنگلہ دیش کو چیلنج کرے گی۔ یہ بیان نہ صرف راشد کی قائدانہ صلاحیت دکھاتا ہے بلکہ افغان کرکٹ کی لچک کو بھی، جو ناکامیوں سے سیکھ کر آگے بڑھ رہی ہے

متعلقہ خبریں

مقبول ترین