اسرائیلی انخلا اور جنگ بندی کی شرط پر تمام یرغمالی آزاد کرنے پر آمادگی؛حماس کی پیشکش

اسرائیل کو فوری طور پر غزہ میں بمباری روکنی چاہیے تاکہ یرغمالیوں کو محفوظ نکالا جا سکا؛ٹرمپ

غزہ میں جاری دو سالہ جنگ کے خاتمے کی امیدوں کو ایک نئی جہت ملی ہے، جہاں حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر اپنا باضابطہ جواب ثالث ممالک کو سونپ دیا ہے۔ حماس نے تمام اسرائیلی یرغمالیوں – زندہ ہو یا ہلاک – کی رہائی کی پیشکش کی ہے، بشرطیکہ اسرائیل فوری جنگ بندی کرے اور غزہ سے مکمل انخلا کر لے۔ یہ جواب ٹرمپ کی طرف سے دی گئی اتوار شام 6 بجے کی مہلت سے چند گھنٹے قبل پہنچا، جس کے بعد ٹرمپ نے خود ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "حماس مستقل امن کے لیے تیار ہے” اور اسرائیل کو غزہ میں بمباری فوری روکنے کا حکم دیا۔ یہ پیش رفت غزہ کی تباہ شدہ پٹی میں امن کی راہ ہموار کر سکتی ہے، جہاں ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور انسانی بحران عروج پر ہے۔

ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ

ٹرمپ نے 29 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران یہ منصوبہ پیش کیا، جو غزہ کی بحالی، یرغمالیوں کی تبادلے، اور عارضی عبوری حکومت کی تشکیل پر مبنی ہے۔ منصوبے کی اہم شقیں شامل ہیں:

  • فوری جنگ بندی اور 72 گھنٹوں میں 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کی رہائی، بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی آزادی۔
  • حماس کی طرف سے طاقت کا صلح، غزہ کی حکومت کو فلسطینی ٹیکنوکریٹس (ماہرین) پر مشتمل عبوری ادارے کو منتقل کرنا۔
  • ایک عالمی نگرانی کمیٹی "بوورڈ آف پیس” کی تشکیل، جس کی سربراہی ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کریں گے۔
  • اسرائیل کا تدریجی انخلا، جبکہ عرب ممالک کی قیادت میں عارضی استحکام فورس (آئی ایس ایف) غزہ کی سلامتی سنبھالے گی۔

ٹرمپ نے حماس کو "تین سے چار دن” کی مہلت دی تھی، جو 3 اکتوبر تک ختم ہونے والی تھی، اور رد کرنے کی صورت میں "جہنم کی مانند” کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ تاہم، حماس نے جواب میں مثبت اشارے دیے، جو ثالثی ممالک قطر، مصر اور ترکی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

حماس کا تفصیلی جواب

حماس کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ وہ ٹرمپ کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں اور امن منصوبے پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ حماس کی اہم شقیں یہ ہیں:

  • یرغمالیوں کی رہائی: تمام 48 یرغمالیوں (جن میں 20 زندہ اور 28 ہلاک سمجھے جاتے ہیں) کی رہائی، بشرطیکہ "فیلڈ کنڈیشنز” پوری ہوں – یعنی اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا، جنگ بندی، اور فلسطینی قیدیوں کی تبادلہ۔ حماس نے تسلیم کیا کہ ہلاک یرغمالیوں کی لاشیں تلاش کرنے میں 72 گھنٹوں سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
  • غزہ کی حکومت: غزہ کی انتظامیہ کو فلسطینی ماہرین (ٹیکنوکریٹس) پر مشتمل عبوری ادارے کو منتقل کرنے پر تیار، لیکن یہ "فلسطینی قومی اتفاق رائے”، عرب اور اسلامی حمایت پر مبنی ہو۔ حماس نے ٹرمپ کی "بوورڈ آف پیس” کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کا مستقبل فلسطینی فریم ورک میں طے ہو، جہاں تمام دھڑے شامل ہوں اور حماس "ذمہ دارانہ کردار” ادا کرے۔
  • فلسطینی حقوق: غزہ اور فلسطینی عوام کے حقوق کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں (جیسے اقوام متحدہ کی قراردادیں) کے مطابق ہو۔ حماس نے طویل مدتی امن کے لیے دو ریاستی حل کی طرف اشارہ دیا، جو ٹرمپ منصوبے میں واضح نہیں ہے۔

حماس نے اپنا جواب قطر کے ذریعے ٹرمپ کو بھیج دیا، اور تفصیلی دستاویز چند گھنٹوں میں متوقع ہے۔

ٹرمپ اور اسرائیل کا ردعمل

ٹرمپ نے فوری طور پر ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کیا: "حماس کے بیان کی بنیاد پر، مجھے لگتا ہے کہ وہ مستقل امن کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ میں بمباری روکنی چاہیے تاکہ یرغمالیوں کو محفوظ نکالا جا سکے۔ یہ مشرق وسطیٰ میں طویل تلاش امن کا معاملہ ہے۔” انہوں نے ویڈیو بیان میں کہا کہ "یہ ایک بڑا دن ہے، اور ہم دیکھیں گے کہ یہ کیسے ختم ہوتا ہے۔” نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسرائیل "ٹرمپ منصوبے کے پہلے مرحلے کی فوری نفاذ کی تیاری کر رہا ہے”، جو یرغمالیوں کی رہائی پر مرکوز ہے۔

تاہم، حماس نے ہتھیاروں کی تسلیم اور غزہ میں حماس کی غیر موجودگی کا مطالبہ (ٹرمپ منصوبے کی کلیدی شق) کا براہ راست ذکر نہیں کیا، جو مذاکرات میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ قطر کے وزیراعظم نے حماس کے جواب کا خیرمقدم کیا اور یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کا اعلان کیا۔

عالمی ردعمل

سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے ٹرمپ منصوبے کا خیرمقدم کیا، اور ترکی کی انٹیلی جنس چیف نے قطر اور مصر کے ثالثیوں سے ملاقات کی۔ فلسطینی اتھارٹی نے بھی ٹرمپ کی "خلوص اور عزم” کی تعریف کی، جو غزہ کی پوسٹ وار حکومت میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم، حماس کے اندر مختلف رجحانات ہیں – دوحا میں پراگمیٹس اور غزہ میں فوجی قیادت – جو منصوبے کی قبولیت کو مشکل بنا سکتے ہیں۔

غزہ بحران کا پس منظر

یہ منصوبہ 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کا نتیجہ ہے، جس میں 1,200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور 251 یرغمالی لیے گئے۔ اسرائیلی جوابی کارروائی میں 40,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، اور غزہ میں قحط اور غذائی بحران نے 453 اموات (بشمول 150 بچے) کا باعث بنایا ہے۔ ٹرمپ نے جنوری 2025 سے متعدد الٹی میٹم دیے ہیں، جو اب تک ناکام رہے، لیکن یہ جواب ایک امید کی کرن ہے۔

حماس کے اہم مطالبات کا خلاصہ جدول

مطالبہ

تفصیلات

یرغمالیوں کی رہائی

تمام 48 (زندہ/ہلاک)، اسرائیلی انخلا اور جنگ بندی کی صورت میں

غزہ کی حکومت

فلسطینی ٹیکنوکریٹس کو منتقل، قومی اتفاق رائے اور عرب/اسلامی حمایت پر

فلسطینی حقوق

جامع قومی فریم ورک میں فیصلہ، تمام دھڑوں کی شمولیت؛ حماس کا کردار

قانونی بنیاد

بین الاقوامی قوانین اور قراردادیں (اقوام متحدہ) کے مطابق

مزید مذاکرات

ثالث ممالک (قطر، مصر، ترکی) کے ذریعے فوری بات چیت

 امن کی راہ میں رکاوٹیں اور امکانات

حماس کا یہ "ہاں، لیکن” ردعمل ٹرمپ منصوبے کی جزوی قبولیت ہے، جو یرغمالیوں کی رہائی جیسے فوری مسائل پر اتفاق رکھتا ہے لیکن غزہ کی طویل مدتی حکومت اور فلسطینی حقوق پر فلسطینی خودمختاری کا مطالبہ کرتا ہے۔ ٹرمپ کی دھمکیوں اور مثبت ردعمل سے واضح ہے کہ یہ ایک بریک تھرو ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب نیتن یاہو نے پہلے مرحلے کی تیاری کا اعلان کیا ہے۔

تاہم، چیلنجز نمایاں ہیں: حماس کی ہتھیاروں کی تسلیم اور "بوورڈ آف پیس” کی مخالفت اسرائیل کی طرف سے تنقید کا باعث بن سکتی ہے، جہاں نیتن یاہو "کام مکمل کرنے” کی بات کر چکے ہیں۔ فلسطینیوں کا خدشہ ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کو بڑے فلسطینی تنازع سے الگ کر دے گا، جبکہ ٹرمپ کی نگرانی کمیٹی کو "غربی مداخلت” سمجھا جا رہا ہے۔

اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو یہ 7 اکتوبر 2023 کی جنگ کا خاتمہ ہوگا، جو مشرق وسطیٰ میں استحکام لائے گا۔ لیکن اگر حماس کی شقیں مسترد ہوئیں تو ٹرمپ کی "جہنموالی دھمکی نئے تشدد کی بنیاد بن سکتی ہے۔ عالمی برادری، خاص طور پر عرب ممالک، کی حمایت اس عمل کو مضبوط بنا سکتی ہے، جو دو ریاستی حل کی طرف قدم بڑھائے گی۔ یہ لمحہ غزہ کے عوام کے لیے امید کی کرن ہے، جہاں فوری جنگ بندی ہزاروں جانیں بچا سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین