ترناوا خان پور: منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ترناوا خان پور میں ’’منہاج کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز‘‘ کے تعمیراتی منصوبے کا سنگِ بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھا اور خصوصی دعا کروائی۔ اس موقع پر پروجیکٹ کی بریفنگ بھی دی گئی جس میں اس کی لاگت اور تکمیل کے مراحل بیان کیے گئے۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ اس عظیم الشان تعلیمی ادارے کا سنگِ بنیاد رکھنا ایک خوش آئند اور مبارک قدم ہے۔ میں اس منصوبے پر کام کرنے والے تمام منتظمین، معاونین اور ڈونرز کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی نیک نیتوں کو قبول فرمائے اور اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔

انہوں نے کہا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا صرف مال دینے تک محدود نہیں بلکہ وقت، علم اور صلاحیتوں کو بھی اللہ کے دین کے لیے وقف کرنا صدقہ ہے۔ اپنے مسلمان بھائی کو مسکرا کر ملنا، کسی بھٹکے کو راہ دکھانا اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ اصل صدقہ وہ ہے جو خلوصِ نیت کے ساتھ دیا جائے۔ اگر نیت میں ریاکاری ہو تو کروڑوں روپے بھی قبول نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے مزید کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے آپ کو اسلامک سنٹر اور کالج کی بنیاد فراہم کی ہے۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اخلاص کے ساتھ اسے مکمل کریں۔ ان شاء اللہ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ دین کی خدمت کریں گے اور امتِ مسلمہ کے لیے روشنی اور رہنمائی کا ذریعہ بنیں گے۔
ڈائریکٹر پراجیکٹ اینڈ انسٹیٹیوشنز منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن سید امجد علی شاہ اور انجینئر رفیع الدین نے چیئرمین سپریم کونسل اور ڈونرز کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کالج کی تعمیر پر 17 کروڑ روپے لاگت آئے گی اور یہ منصوبہ تین برس میں مکمل ہوگا۔

تقریب میں ناظمِ اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل خرم نواز گنڈا پور، حاجی ملک ممتاز اکبر، حاجی غلام شبیر، نثار سلیمانی، جاوید ہزاروی، شیخ فرحان عزیز، ڈاکٹر عمران یونس، سردار جاوید، انجینئر رفیع الدین، ذیشان کلیم، پروجیکٹ آرکیٹیکٹ ولید آصف، احتشام الحق اور ایگزیکٹیو کمیٹی کے دیگر اراکین سمیت خانپور، ہری پور، ایبٹ آباد اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے عہدیداران اور ڈونرز کی بڑی تعداد شریک تھی۔
روزنامہ تحریک کے سینئر تجزیہ نگار محمد کاشف جان کا کہنا ہے کہ
یہ خبر ایک انتہائی مثبت اور امید افزا واقعے کی عکاسی کرتی ہے، جو نہ صرف تعلیمی شعبے میں ایک اہم اضافہ ہے بلکہ معاشرتی اور مذہبی سطح پر بھی ایک مثالی قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔ آئیے اس کے چند کلیدی مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں:
تعلیمی ترقی کا فروغ: منہاج کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز جیسا ادارہ قائم کرنا، جو شریعہ اور اسلامی سائنسز پر توجہ مرکوز کرے گا، موجودہ دور میں جہاں تعلیم کی کمی اور اخلاقی اقدار کی کمزوری کا سامنا ہے، ایک بہت بڑا مثبت اقدام ہے۔ یہ ادارہ نئی نسل کو دینی اور دنیاوی علم کی روشنی میں تیار کرے گا، جو امت مسلمہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا بیان کہ "یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ دین کی خدمت کریں گے”، اس کی گہری اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
کمیونٹی کی یکجہتی اور شمولیت: تقریب میں خانپور، ہری پور، ایبٹ آباد اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے عہدیداران، ڈونرز اور اراکین کی بڑی تعداد کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ ایک فرد کی کوشش نہیں بلکہ اجتماعی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ڈونرز اور منتظمین کی تعریف کرتے ہوئے چیئرمین کا شکریہ ادا کرنا، ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مزید لوگوں کو ایسے نیک کاموں کی طرف راغب کر سکتا ہے۔ یہ کمیونٹی بلڈنگ کا عمدہ نمونہ ہے۔
اخلاقی اور روحانی اقدار کی نشر: خطاب میں صدقہ کی وسیع تعبیر (مال، وقت، علم اور سادہ نیک اعمال) کو بیان کرنا، لوگوں کو روزمرہ زندگی میں خلوص اور اخلاص کی یاد دلاتا ہے۔ یہ پیغام کہ "اگر نیت میں ریاکاری ہو تو کروڑوں روپے بھی قبول نہیں ہوتے”، معاشرے میں دیانتداری اور سچائی کو فروغ دیتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی بنیاد پر زور دے کر، یہ ادارہ ایک تسلسل کی علامت بنتا ہے جو مستقبل کی نسلوں کو مستحکم راہ دکھائے گا۔
عملی منصوبہ بندی اور شفافیت: بریفنگ میں لاگت (17 کروڑ روپے) اور تکمیل کا وقت (تین سال) کا واضح ذکر، منصوبے کی سنجیدگی اور احتساب کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نہ صرف ڈونرز کا اعتماد بڑھاتا ہے بلکہ ایسے پروجیکٹس کی کامیابی کی ضمانت بھی دیتا ہے۔
مجموعی طور پر، یہ تقریب ایک ایسے دور میں امید کی کرن ہے جہاں تعلیم اور دین کی روشنی میں معاشرتی مسائل کا حل تلاش کیا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ قومی اور عالمی سطح پر منہاج القرآن جیسے اداروں کی کاوشوں کو تقویت دے گی، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین سے لوگوں کی نیک نیتوں کو عملی شکل ملے گی۔ ایسے واقعات معاشرے کو مثبت سمت میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس کی کامیابی کی دعا ہی کی جاتی ہے۔





















