انگلش کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مائیکل ایتھرٹن نے عالمی کرکٹ کے منظر نامے میں ایک نئی بحث کو ہوا دے دی ہے، جہاں انہوں نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو تجویز دی ہے کہ آئندہ عالمی مقابلوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچز کا انعقاد نہ کیا جائے۔ یہ بیان ایشیا کپ 2025 کے دوران سامنے آنے والے حالات سے متاثر ہو کر سامنے آیا، جو دونوں ممالک کے درمیان کھیل سے زیادہ سیاسی کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایتھرٹن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے بگڑتے تعلقات نے اس روایتی مقابلے کو تنازعات کا مرکز بنا دیا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے معاشی مفادات سے بالاتر ہو کر دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ یہ تجویز کرکٹ کے شائقین اور عالمی اداروں کے درمیان ایک دلچسپ بحث کا باعث بن چکی ہے۔
ایشیا کپ کا تناظر
ایتھرٹن نے اپنی رائے کا پس منظر ایشیا کپ 2025 کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدہ صورتحال سے جوڑا، جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچز نے کھیل سے ہٹ کر سیاسی بیان بازی اور دباؤ کو جنم دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے حالیہ ایونٹ میں دونوں ٹیموں کے درمیان مقابلوں کے دوران ہونے والے واقعات کو قریب سے دیکھا، جو کھلاڑیوں، انتظامیہ، اور شائقین کے لیے ایک چیلنج بن گئے۔ ان کا مؤقف ہے کہ آئی سی سی کو ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست مقابلوں سے گریز کرنا چاہیے، جو اب کھیل کی خوبصورتی کو داغدار کر رہے ہیں۔
معاشی فوائد کے پیچھے چھپا تنازع
سابق کپتان نے تسلیم کیا کہ پاک-بھارت مقابلوں کا انعقاد آئی سی سی کے مالیاتی ڈھانچے کے لیے اہم ہے، جہاں یہ میچز براڈکاسٹنگ رائٹس کے ذریعے اربوں ڈالرز کی آمدنی پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ سرکل میں اس مقابلے کی وجہ سے براڈکاسٹنگ معاہدوں کی مالیت تقریباً 3 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے، جو عالمی کرکٹ کے مالی استحکام کا ایک بڑا ستون ہے۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ یہ معاشی فائدہ سفارتی اور سیاسی کشیدگی کے مقابلے میں معمولی ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر موجود تناؤ کو مزید بڑھا رہا ہے۔ ایتھرٹن کا خیال ہے کہ کھیل کو سیاست کے آلے کے طور پر استعمال ہونے سے بچانا ضروری ہو گیا ہے۔
کرکٹ سے ڈپلومیسی کا زوال
ایتھرٹن نے ماضی کے دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب کرکٹ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا ذریعہ بنتا تھا، جو "کرکٹ ڈپلومیسی” کے نام سے مشہور تھا۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے، اور یہ مقابلہ سرحدوں پر موجود کشیدگی کا ایک غیر رسمی محاذ بن گیا ہے۔ انہوں نے تنقید کی کہ یہ میچز اب پروپیگنڈے اور قوم پرستی کے آلے بن چکے ہیں، جو کھیل کے اصل جذبے کو دھندلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والی دراڑ نے اس روایتی مقابلے کو ایک خطرناک رخ دے دیا ہے، جسے فوری طور پر سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
آئندہ سرکل کے فیصلے
سابق کپتان نے آئی سی سی پر زور دیا کہ آئندہ شیڈولنگ سرکل میں فیصلہ سازی مکمل طور پر شفاف ہونی چاہیے۔ انہوں نے استدلال پیش کیا کہ پاک-بھارت میچز کے انعقاد کا جواز ہمیشہ مالی مفادات سے جوڑا گیا، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ اسے دوبارہ غور سے دیکھا جائے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر معاشی فوائد کے باوجود یہ میچز امن اور ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن رہے ہیں تو انہیں ختم کر دینا چاہیے۔ ایتھرٹن نے کہا کہ کرکٹ کے عالمی ادارے کو اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی، جہاں کھیل کی پاکیزگی کو معاشی مفادات سے بالاتر رکھا جائے۔
بحث کا آغاز
ایتھرٹن کے بیان نے کرکٹ کے حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ کچھ مبصرین ان کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے موجودہ حالات میں یہ فیصلہ ناگزیر ہے، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ میچز کرکٹ کی روح کو زندہ رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی اور بھارتی شائقین کے درمیان شدید بحث دیکھی جا رہی ہے، جہاں کچھ نے اسے "کرکٹ کی موت” قرار دیا تو دوسروں نے اسے "تناؤ سے نجات” کا راستہ سمجھا۔ آئی سی سی کی جانب سے ابھی کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن اس تجویز پر غور کا امکان موجود ہے۔
اہم نکات کا خلاصہ جدول
| پہلو | تفصیلات |
|---|---|
| تجویز کا پس منظر | ایشیا کپ 2025 کے دوران تناؤ، دونوں ملکوں کے تعلقات میں کمی |
| معاشی اہمیت | براڈکاسٹنگ رائٹس سے 3 ارب ڈالرز کی آمدنی، لیکن تنازعات کا باعث |
| تاریخی کردار | ماضی میں ڈپلومیسی کا ذریعہ، اب کشیدگی اور پروپیگنڈے کا آلہ |
| ایتھرٹن کا موقف | میچز ختم کرنے کی تجویز، شفاف فیصلہ سازی کی ضرورت |
| عالمی ردعمل | شائقین میں تقسیم، آئی سی سی سے ابھی کوئی بیان نہیں |
مائیکل ایتھرٹن کا بیان کرکٹ کے عالمی منظر نامے میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں کھیل اب محض تفریح سے ہٹ کر سیاسی میدان کا حصہ بن چکا ہے۔ ایشیا کپ 2025 کے دوران پاکستان اور بھارت کے میچز نے نہ صرف میدان میں بلکہ اسٹیڈیم اور سوشل میڈیا پر بھی کشیدگی کو بڑھاوا دیا، جو ان کے تعلقات کی موجودہ دراڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ معاشی فوائد (3 ارب ڈالرز) آئی سی سی کے لیے ایک بڑا لالچ ہیں، لیکن ایتھرٹن کی بات درست ہے کہ اگر یہ میچز امن کو خطرے میں ڈالتے ہیں تو انہیں ختم کرنا ہی بہتر ہے، خاص طور پر جب سرحد پر تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہو۔
تاہم، یہ تجویز عملی طور پر مشکل ہے، کیونکہ پاک-بھارت میچز نہ صرف مالیاتی بلکہ جذباتی طور پر بھی عالمی کرکٹ کے سب سے بڑے کشش کا باعث ہیں۔ اگر آئی سی سی نے اسے قبول کیا تو یہ کھیل کی منفرد شناخت کو متاثر کر سکتا ہے، جبکہ مسترد کرنے سے تنازعات جاری رہیں گے۔ پاکستان اور بھارت کو خود قدم اٹھانا ہوگا، جہاں کرکٹ کو دوبارہ "ڈپلومیسی” کا ذریعہ بنایا جائے، نہ کہ پروپیگنڈے کا۔ اس صورت میں، ایتھرٹن کی تجویز ایک انتباہ ہے کہ کھیل کو سیاسی آلہ بننے سے بچایا جائے، ورنہ اس کی خوبصورتی داؤ پر لگ جائے گی۔





















