لاہور :پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے اعلان کیا ہے کہ سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی طرف سے دیا گیا مناظرے کا چیلنج قبول کر لیا گیا ہے۔ آپ مجھے 17 سالہ پروجیکٹس کی تفصیلات بتائیں، میں آپ کو صرف 2 سال کی کارکردگی دکھاؤں گی۔ لاہور اور کراچی کے درمیان واضح فرق موجود ہے، میں آپ کو پنجاب کی سیر کرانا چاہتی ہوں، اور بدلے میں آپ مجھے نوابشاہ اور گڑھی خدا بخش کے علاقے دکھائیں۔ پیپلز پارٹی ہمارے اتحادی ہیں، ان کا ہم بہت احترام کرتے ہیں، مگر جو بھی بات کی جائے گی، اس کا مناسب جواب بھی ملے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈی جی پی آر میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ صوبائی کابینہ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں پنجاب میں آنے والے سیلاب کی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ یہ پنجاب کا اب تک کا سب سے شدید سیلاب ثابت ہوا، تین دریاؤں کی طغیانی کے باوجود اگر پنجاب حکومت تیار نہ ہوتی تو نقصانات کا حجم بہت زیادہ ہوتا۔ اس آفت سے تقریباً 47 لاکھ لوگ بری طرح متاثر ہوئے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ سانپ کے کاٹنے سے کسی بھی انسانی جان کا نقصان نہ ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بارش کا حجم 49 فیصد تک زیادہ رہا، آج پوری کابینہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہم سب پاکستانی ہیں، پنجاب نے بڑے صوبے اور بڑے بھائی کے طور پر اپنا کردار ادا کیا، مگر جب پنجاب کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تو اسے اپنی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پنجاب کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ وہ بہت دکھی ہیں۔ اس سیلاب میں جانی نقصان 2010 کے سیلاب سے تقریباً آدھا رہا، 25 اضلاع میں مکمل تیاریاں کی گئی تھیں، سیلاب آنے کے باوجود بڑے مسائل سامنے نہ آئے، صرف 2 اضلاع میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ سیلاب کی تباہیوں اور دیگر نقصانات کا درست تخمینہ لگایا جا رہا ہے، سول ڈیفنس کے عملے کی تنخواہوں میں 15 ہزار روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 17 تحصیلوں کو سیلاب کی مشقوں کے لیے تیار رکھا گیا ہے، جو لوگ سیلاب کے راستوں پر رہائش پذیر ہیں، انہیں کسی بھی مالی امداد سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے زور دیا کہ سیلاب کی زد میں آنے والے راستوں پر رہنے والوں کو مشورہ دیا جائے کہ وہ سیلاب کی بیلٹ سے باہر نئی رہائش بنائیں۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بچوں کو لیپ ٹاپ تقسیم کر رہی ہیں یا بسوں کا افتتاح کر رہی ہیں، پنجاب حکومت کے پاس بہت سارے کام ہیں جن سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ اپنے اوپری حصوں کو خالی رکھے ہوئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ 90 ہزار گھر کہاں ہیں، بھائی یہ گھر فروخت کرنے کے لیے نہیں بنائے گئے، جو کچھ نہ کر سکیں وہ تو صرف منہ ہی ہلا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے تمام پروجیکٹس میں سادگی کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے، صوبائی کابینہ نے منظور کیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں کو تمام قسم کے ٹیکسوں سے معاف کر دیا جائے گا۔
کل جب سندھ کے وزیر اطلاعات تشریف لائے تو مجھے لگا کہ سولر، روٹی یا کوڑا اٹھانے جیسے مسائل پر بات کرنے آئے ہیں، جو کام کرنے آئے تھے وہی کر کے واپس چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی حکومت پر اتنا دباؤ ہے کہ جو کام کرنے آئے وہ بھی ادھورے رہ جاتے ہیں، کے پی کے میں کلاؤڈ برسٹ کے وقت مدد کی بات تو کی گئی، مگر پنجاب کے سیلاب متاثرین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے تنقید کی کہ ان لوگوں نے سیلاب زدگان کے لیے کیا کیا ہے، ندیم افضل چوہدری نے 5 پریس کانفرنسیں کیں، باقی لوگوں نے بھی یہی کیا، مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ وہ تین بہنوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور پھول بھیجنا چاہتے ہیں، مرتضیٰ وہاب اپنی بہنوں کی پریشانی تو سمجھیں، کبھی کوڑا اٹھانے کی فکر بھی کر لیں۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسے آفت پر سیاست کرنا نہیں کہتے تو پھر کیا کہیں؟ یہ سب سندھ کے لوگ ہیں، دو تین پنجاب کے لوگ بھی شامل ہیں، پنجاب کے پاس وقت کی کمی ہے، بہت کام باقی ہے، پنجاب کے لوگوں کو ریلیف پیکج کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے دوبارہ کہا کہ میں شرجیل انعام میمن کے مناظرے کے چیلنج کو قبول کر چکی ہوں، آپ 17 سال کے پروجیکٹس کی فہرست دیں، میں 2 سال کی کارکردگی بیان کروں گی، آپ جنوبی پنجاب کی بات کرتے ہیں تو آئیں، میں آپ کو ملتان، لودھراں اور رحیم یار خان دکھاتی ہوں۔ آپ مجھے کشمور لے جائیں، گڑھی خدا بخش لے جائیں، دیکھیں آپ وہاں تک رسائی بھی دے پائیں گے یا نہیں، ہر معاملے پر مسلسل تنقید کرتے ہیں، ہم اپنا پانی کیوں دیں؟ پنجاب بڑا بھائی ہے مگر کیوں دیں، ہر وقت الزامات لگائیں تو یہ صوبائیت نہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے صوبے کی بات کرے تو وہ صوبائیت کہلاتا ہے۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ شرجیل میمن خاندان کے درمیان تھیوری لے کر آئیں، کہ پنجاب وفاق کے خلاف سازش کر رہا ہے، مریم نواز اور شہباز شریف کے خلاف سازش کر رہی ہے، میں ایسا کبھی نہ کروں گی، میڈیا کے اینکرز خود ہی سروے کر لیں، کراچی اور لاہور کا فرق خود دیکھیں، مجھے سندھ میں بیٹھ کر پنجاب کی بات کیوں کرنی پڑے؟ وزیر اطلاعات نے کہا کہ کل ایم کیو ایم کے ایک ایم پی اے نے پوچھا کہ کیا مریم نواز کو خط لکھوں؟ پنجاب کے تمام پروجیکٹس میں وفاق کا ایک روپیہ بھی شامل نہیں، ہم سب پاکستانی ہیں، اس کے بعد صوبوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ میں اپنی وزیر اعلیٰ کی کارکردگی بیان کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں، میں نے آپ کو لاہور کی دعوت دی ہے، جہاں کہیں بھی چاہیں لے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آپ مجھے کشمور لے جائیں، کراچی ہی لے جائیں، آپ کو فرمائش کا حق تو ہے، مطالبہ کا حق ہے مگر ڈکٹیٹ کرنے کا حق نہیں، پنجاب میں کیا ہوگا یہ سندھ نہیں طے کرے گا، ہر ایک اپنی ذمہ داری کے دائرے میں بات کرے تو کوئی مسئلہ نہ ہوگا، کیا یہ طے پا چکا تھا کہ کوئی بھی بحران آئے تو اس پر سیاست کی جائے گی، ہمارے اتحادی ہیں، ان کا ہم بہت احترام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز پر حملے کرنے کی انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے، یہ ہم نے شروع نہیں کیا، جنہوں نے شروع کیا ہے ان کو نہ پریس کانفرنس میں سکون مل رہا ہے نہ ٹویٹ میں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں چل سکتا کہ پنجاب پر 34 حملے کریں اور ہم دوسرا گال آگے کر دیں، ایسا نہیں ہوگا، میں آج پریس کانفرنس کرنے آئی ہوں، پنجاب لاوارث نہیں ہے، مودی کے معاملے میں اتنا ہی کافی ہے کہ ہم اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔





















