ایک مسکراتی لڑکی کی تصویر دیکھ کر آپ کو کچھ خاص نہ لگے، تو یہ فطری ہے، کیونکہ یہ ظاہر میں ایک عام سی نوجوان لڑکی کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ تاہم، یہ تصویر ہالی ووڈ کی دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والی ہے، جہاں حقیقی اداکاروں کی نیندیں اڑا رہی ہے اور ایک نئی بحث نے صنعت کو تقسیم کر دیا ہے۔ یہ لڑکی، جس کا نام ٹِلی نورووڈ ہے، کوئی زندہ انسان نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تیار کردہ پہلی مکمل ڈیجیٹل اداکارہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی تخلیق نے ہالی ووڈ کے ستاروں کو پریشان کر دیا ہے، کیونکہ اسے حقیقی فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، جو روایتی اداکاری کی جڑوں کو ہلا سکتی ہے۔ یہ تنازعہ نہ صرف ٹیکنالوجی کی طاقت کو اجاگر کر رہا ہے بلکہ فلم انڈسٹری میں انسانی تخلیقیت کی قدر کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔
اے آئی کی دنیا کی نئی ستارہ
ٹِلی نورووڈ کی یہ تصویر، جو پارٹیکلز 6 کمپنی کی جانب سے تیار کی گئی، ایک ایسے کردار کی جھلک ہے جو ہالی ووڈ کی دلکش اداکاراؤں کی یاد دلاتی ہے۔ کمپنی کی اے آئی ڈویژن ایکسکویا نے اسے مئی 2025 میں انسٹاگرام پر متعارف کروایا، جہاں اس کا اکاؤنٹ ہزاروں فالوورز حاصل کر چکا ہے۔ ٹِلی کی انسٹاگرام پوسٹس میں وہ فیشن، کمڈی اسکیچز، اور روزمرہ کی زندگی کی جھلکیاں شیئر کرتی ہے، جو اسے ایک "لڑکی اگلی دروازے” کی طرح دکھاتی ہے۔ کمپنی کے مطابق، یہ کردار فلموں، اشتہارات، اور ڈیجیٹل مواد میں استعمال ہو سکتا ہے، اور زوریخ فلم فیسٹیول میں اسے ٹیلنٹ ایجنٹس سے دستخط کرنے کی خبر نے تنازعہ کو ہوا دی۔ ٹِلی کی تخلیق کو دنیا کی پہلی اے آئی اداکارہ کہا جا رہا ہے، جو ہالی ووڈ کے مستقبل کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اسے حقیقی اداکاروں کی جگہ لینے والا خطرہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔
ہالی ووڈ کی مخالفت
اس اے آئی اداکارہ کی تخلیق نے ہالی ووڈ کے متعدد ستاروں کو شدید پریشان کر دیا ہے، جو اسے انسانی اداکاری کی توہین اور روزگار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ورائٹی میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق، متعدد ہالی ووڈ اسٹارز نے اس الگورتھم سے مقابلے کے خیال کو مسترد کر دیا ہے۔ اداکارہ ملیسا بیریرا نے اپنے انسٹاگرام پوسٹ میں واضح الفاظ میں مخالفت کی، کہتے ہوئے کہ ایسے ایجنٹس جو اسے دستخط کریں، ان سے براہ راست تعلق ختم کر دیں۔ کچھ فنکاروں کا موقف ہے کہ روایتی کرداروں کے لیے اے آئی کو استعمال کرنا اداکاروں کے محنت کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی، جو انسانی تخلیقیت کو نظر انداز کرتی ہے۔
اس تنازعہ نے فلم انڈسٹری میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اے آئی ٹولز حقیقی اداکاروں کی جگہ لے سکتے ہیں، جو دو سال قبل ہالی ووڈ میں اداکاروں اور رائٹرز کی طویل ہڑتال کی بنیادی وجہ بھی بنے تھے۔ اس ہڑتال میں اداکاروں نے اے آئی کی تربیت کے لیے کاپی رائٹ شدہ کاموں کے استعمال کے خلاف احتجاج کیا تھا، اور اب ٹِلی نورووڈ اس بحث کو دوبارہ زندہ کر رہی ہے۔ ایس اے جی اے ایف ٹی آر اے (اداکاروں کی یونیئن) نے بھی اسے "انسانی فنکاری کی قدر میں کمی” قرار دیتے ہوئے تنقید کی، کہتے ہوئے کہ یہ ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جو بغیر اجازت انسانی پرفارمنسز پر تربیت یافتہ ہے۔
اے آئی کمپنی کا دفاع
ٹِلی نورووڈ کو تیار کرنے والی اے آئی کمپنی پارٹیکل 6 کے چیف ایگزیکٹو وان ڈیر ویلڈن نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کردار انسانوں کا متبادل نہیں بلکہ ایک تخلیقی فن پارہ ہے۔ انہوں نے زوریخ فلم فیسٹیول میں اعلان کیا کہ وہ اے آئی اداکاروں کے لیے ایک الگ ایجنسی قائم کر رہے ہیں، جو روایتی ہالی ووڈ ایجنٹس کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ویلڈن کا کہنا ہے کہ "اے آئی اداکار اپنے موضوعات سے انصاف کر سکتے ہیں، اور ان کا انسانی اداکاروں سے موازنہ غلط ہے۔” کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ٹِلی نے پہلے ہی پارٹیکل 6 کی یوٹیوب ویڈیوز میں کام کیا ہے، اور اس کا انسٹاگرام اکاؤنٹ ہزاروں فالوورز رکھتا ہے، جو اس کی مقبولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم، اس اعلان پر بھی شدید تنقید ہوئی، جہاں کئی ایجنسیز نے اسے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
ہالی ووڈ کا مستقبل
ٹِلی نورووڈ کی آمد ہالی ووڈ کے لیے ایک بڑا سوال اٹھاتی ہے کہ کیا فلموں میں اے آئی کرداروں کا دور شروع ہو رہا ہے، جو لاگت کم کرنے اور تخلیقی آزادی بڑھانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک نئی صنف کی تخلیق ہے، جیسے 2001 کی فلم "فائنل فینٹزی” میں اے آئی کردار ایک راس، لیکن دوسرے اسے انسانی اداکاروں کی جگہ لینے والا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ تنازعہ 2023 کی ہڑتال کی یاد تازہ کر رہا ہے، جہاں اداکاروں نے اے آئی کے استعمال پر معاہدے طلب کیے تھے، اور اب یہ بحث مزید گہری ہو رہی ہے۔ ٹِلی کی مسکراہٹ، جو ایک آرٹ کی طرح دکھائی دیتی ہے، ہالی ووڈ کی روایتی دنیا کو چیلنج کر رہی ہے، جہاں انسانی جذبات کی قدر اب ایک امتحان بن گئی ہے۔
ٹِلی نورووڈ کی تخلیق ہالی ووڈ کے لیے ایک سنگ میل ہے، جو اے آئی کی طاقت کو فلم سازی میں شامل کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہے، لیکن یہ انسانی اداکاروں کے لیے ایک بڑا خطرہ بھی ہے۔ کمپنی کا دعویٰ کہ یہ "آرٹ” ہے درست لگتا ہے، کیونکہ ٹِلی جیسی تخلیقات لاگت کم کرنے اور نئی کہانیوں کو ممکن بناتی ہیں، جیسے 2001 کی ایک راس یا 2019 کی کیری فشر کی ڈیجیٹل واپسی۔ تاہم، ملیسا بیریرا اور ایس اے جی اے ایف ٹی آر اے کی مخالفت وزن رکھتی ہے، کیونکہ یہ انسانی محنت، جذبات، اور کاپی رائٹ کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہے، جو 2023 کی ہڑتال کی جڑ تھی۔
یہ تنازعہ ہالی ووڈ کو مجبور کر رہا ہے کہ اے آئی کو ضابطے میں لائے، جہاں انسانی اداکاروں کو تحفظ ملے۔ اگر ٹِلی جیسی اداکارہ کامیاب ہوئی تو فلموں کی دنیا تبدیل ہو جائے گی، جہاں لاگت کم ہونے سے نئی تخلیقات بڑھیں گی، لیکن انسانی فنکاری کی قدر کم ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، یہ ایک مثبت چیلنج ہے جو صنعت کو جدت کی طرف لے جائے گا، بشرطیکہ توازن برقرار رہے – ورنہ ہالی ووڈ کی روح ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔





















