فتنہ خوارج

پاکستان پچھلی دو دہائیوں سے بالخصوص ایک نظر نہ آنے والے دشمن کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ یہ دشمن اپنے خفیہ مذموم عزائم کے ساتھ بے گناہوں کی جانوں سے کھیل رہا ہے۔ خیبرپختونخوا اور آبادی کے اعتبار سے بڑا صوبے بلوچستان بطور خاص اس دشمن کے نشانے پر ہے۔ اب پنجاب میں بھی یہ نظر نہ آنے والا دشمن لاء اینڈ آرڈر کے سنگین مسائل کھڑے کررہا ہے۔ بلوچستان میں رواں ہفتے بے گناہ انسانی جانوں کے خون بہے جانے کے دلخراش واقعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئے۔ بلوچستان میں قتل و غارت گری کے واقعات ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کررہے ہیں۔ بلوچستان معدنی خزانوں سے مالا مال صوبہ ہے اور بین الاقوامی شہرت یافتہ آبی راہداری اسی صوبہ میں ہے۔ خطہ کے بہت سارے ملک اس آبی گزر گاہ کی فعالیت میں اپنی خوشحالی دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی مضبوط معیشت کا انحصار بھی گوادر کی آبی گزر گاہ پر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کو جنگ و جدل اور سازشوں کا مرکز بنایا گیا ہے۔ بدقسمتی سے مذموم مقاصد کے لئے وہ لوگ استعمال ہورہے ہیں جن کا تعلق اسی خطہ سے ہے اور جنہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ کوئی بھی باغیانہ سرگرمی مقامی سہولت کاروں کی مدد کے بغیر جڑ نہیں پکڑ سکتی۔ لاء اینڈا ٓرڈر کی صورت حال کو بہتر بنانے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے جتنی قربانیاں ہماری لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کے اہلکار دے رہے ہیں اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ افواج پاکستان وطن عزیز کے چپے چپے کے دفاع کے لئے بے مثال قربانیاں دے رہی ہے۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں اور بے گناہوں کے قتل عام میں ملوث عناصر کو ہمارے ریاستی اداروں نے ”خوراج“قرار دیا ہے۔ خوارج کی تاریخ اور ان کے مذموم اور منفی کردار پر آرمی چیف گاہے بگاہے بڑی معلومات افزاء گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ فتنہ خوارج کی فکری تشکیل کی تاریخ پر سرسری سے نگاہ دوڑائیں تو یہ اس فتنے نے پہلی بار عہد رسالت مآبؐ میں سر اٹھایا اس کا آغاز سربراہ مملکت پر بلاتحقیق نا انصافی کا الزام عائد کرنا تھا، جب آپ ؐ غزوہ حنین کے بعد جعرانہ کے مقام پر مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے تو ایک بدبخت نے آپ ؐ پر الزاما لگایا کہ معاذ اللہ آپ ؐ عدل نہیں کررہے، حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: ”تو ہلاک ہو، اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا“۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں اسی ذوالخویصرہ تمیمی کا ہم خیال گروہ ہی بعدازاں خوارج کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔عہدعثمانی فتنہ خوارج نے خوب سر اٹھایا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد اُمت میں کئی فتنوں نے جنم لیا جن میں جھوٹی نبوت کے دعوے، دین سے ارتداد، زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار اور دیگر کئی بنیادی اسلامی تعلیما ت سے انحراف کے فتنے شامل ہیں۔ انہی فتنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خارجی فکر کے حاملین نے اپنے باغیانہ متشدد نظریات کی ترویج شروع کر دی یہاں تک کہ سیدنا عثمان غنیؓ کے دور اواخر میں آپ ؓ کو قتل کرنے کی سازش تیار کرنے والے یہی متشدد اور خارجی لوگ تھے ان میں سب سے نمایاں عبداللہ بن سبا تھا۔ اس انتہا پسند دہشت گرد گروہ نے پہلی مرتبہ مدینہ منورہ میں سیدنا عثمان غنیؓ کے عہدِ حکومت میں خالص اسلامی حکومت کی اتھارٹی اور ریاستی نظم کو چیلنج کیا۔ یعنی ایک منظم اور مربوط ریاست کے قانون کو ماننے سے انکار اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے خارجی ہیں۔ عہد علوی میں بھی فتنہ خوارج نے پر پرزے نکالے، اس وقت ان کا نعرہ تھا ”اللہ کے سوا کوئی حکم نہیں کر سکتا“۔ خارجیوں کے گروہ کے یہ افکار جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علم میں آئے تو آپ نے فرمایا ”بات تو حق ہے لیکن اس کا مقصود باطل ہے۔“ یعنی گروہ خوارج اسلام کی بودوباش میں اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرتا ہے اور ان کی پہلی نشانی جماعت کے خلاف یعنی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا ہے۔ کتب حدیث میں فتنہ خوارج کے حوالے سے بڑی تفصیل دستیاب ہے مگر ان کی سب سے نمایاں نشانی بے گناہوں کی جان لینا اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا ہے، اس فتنے کے خلاف لڑنا اور اس کی سرکوبی ہر کلمہ گو مسلمان کا فرض اولین ہے۔ مستند آئمہ و محدثین کی روایت کردہ حدیث مبارکہ اور ان کے جاری کردہ فتاویٰ جات کے دفتر کے دفتر موجود ہیں کہ ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والے اور اسلام کی مسلمہ حدود کو توڑنے والے خوارج کے خلاف ان کے مکمل خاتمہ تک لڑنا واجب اور جہاد ہے۔ اس حوالے سے امام سرخسیؒ،امام مرغینائیؒ، امام ابن قدامہؒ، امام نووی ؒ، امام ابراہیم بن مفلح الحنبلیؒ، علامہ زین الدین بن نجیم حنفیؒ، علامہ جزیریؒ کے فتاویٰ جات موجود ہیں۔ کالم کی محدود گنجائش کی وجہ سے ان فتاویٰ جات کو نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ گروہ خوارج کے خلاف اس وقت ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑی جوانمردی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے ہاتھ مضبوط کرنا، ان کی مدد کرنا حب الوطنی کے ساتھ ساتھ ایمان کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔ پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کی حق تلفی کے معاملات کو اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے معاملہ کو خلط ملط نہ ہونے دے جو لوگ شناختی کارڈ دیکھ کر اور بسوں، ویگنوں سے اتار اتار کر لوگوں کو قتل کررہے ہیں ان کا تعلق اسی فتنہ خوارج کی جماعت کے ساتھ ہے۔ دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے موضوع پر تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک مبسوط تاریخی فتویٰ دے رکھا ہے اس کا مطالعہ فکری واضحیت کے لئے اکسیر ہے۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں

مقبول ترین