مدارس بل، حکومتی تجاویز کو چمٹے سے بھی چھونے کو تیار نہیں:فضل الرحمن

مدارس بل، حکومتی تجاویز کو چمٹے سے بھی چھونے کو تیار نہیں:فضل الرحمن

چارسدہ: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ مدارس بل کے حوالے سے حکومت کی کسی بھی تجویز کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے کوئی ترمیم پیش کی تو ہم نہ صرف اسے مسترد کریں گے بلکہ اس مسودے کو چمٹے سے پکڑنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
چارسدہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس کے حوالے سے یہ بل نواز شریف، آصف زرداری، سینیٹ، اور قومی اسمبلی سمیت تمام اداروں کے اتفاق رائے سے منظور ہوا تھا۔ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا، اسمبلی نے اسے پاس کیا اور صدر مملکت نے اس پر دستخط کیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صدر دیگر بلز پر دستخط کرسکتے ہیں تو مدارس بل کو اعتراضات کے ساتھ واپس کیوں بھیجا گیا؟
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے یہ نیا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مدارس پہلے ہی وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک تھے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مدارس کو مکمل آزادی حاصل ہے، وہ چاہیں تو کسی بھی وفاقی ادارے کے ساتھ الحاق کرسکتے ہیں، چاہے وہ 1860ء ایکٹ کے تحت ہو یا وزارت تعلیم کے ساتھ۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، اس لیے یہ اعتراضات اور شکوک بے بنیاد ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مدارس میں کوئی اختلاف نہیں اور مدارس بل پر تمام علما و دینی ادارے متفق ہیں۔ حکومت علما کو تقسیم کرنے کی سازش بند کرے۔ انہوں نے بتایا کہ مفتی تقی عثمانی اور وفاق المدارس کے صدر کی جانب سے 17 دسمبر کو ایک اہم اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے فیصلے اور اعلان کو اس اجلاس تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تمام امور باہمی اتفاق رائے سے طے کیے جا سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت مدارس کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش نہ کرے۔ ہم قانون کی بات کر رہے ہیں، جبکہ حکومت مدارس کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مدارس کی آزادی اور خودمختاری ہماری اولین ترجیح ہے اور ہم اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم نے وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن قبول کی تو حکومت نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ایک ڈائریکٹوریٹ مسلط کر دیا، جو ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس بل پر خفیہ ادارے بھی اتفاق رائے کر چکے ہیں اور تمام معاملات ان کی رضامندی سے طے پائے۔ ان کا سوال تھا کہ جب سب کچھ اتفاق رائے سے طے ہوچکا ہے تو اب حکومت کیوں پیچھے ہٹ رہی ہے؟ یہی وہ بدنیتی ہے جس پر ہم احتجاج کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے مدارس بل کو منظور کر لیا ہے اور ہم اس کے استحکام کے خواہاں ہیں۔ اس وقت حکومت کی کسی تجویز کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر حکومت نے کوئی ترمیم پیش کی تو ہم اسے مسترد کریں گے اور ان کے مسودے کو چمٹے سے بھی چھونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین