حکومت نے پاک فضائیہ کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے انجینئرنگ شعبے کو 6.5 بلین روپے میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی سمری وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی جائے گی۔
پاک فضائیہ، حکومت کو آئندہ پانچ سال کے دوران 2.5 بلین روپے نقد ادا کرے گی، جبکہ آئندہ دس سالوں میں ریٹائرڈ 259 ملازمین کے 3 بلین روپے کے واجبات اور موجودہ 251 ملازمین کے 1.1 بلین روپے کے پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ کے واجبات بھی ادا کرے گی۔
پی ای سی، جو قومی ایئرلائن کا ایک کاروباری یونٹ ہے، ایرو اسپیس انڈسٹری اور دیگر صنعتوں کے لیے اعلیٰ معیار کے پرزے تیار کرتا ہے۔ دسمبر 2022 تک پی ای سی کے اثاثوں کی مالیت 1.2 بلین روپے اور کل واجبات 2.9 بلین روپے تھے، جس کے نتیجے میں اس کی خالص منفی ایکویٹی 1.73 بلین روپے تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم چار رکنی وزارتی کمیٹی نے پی ای سی کی پاک فضائیہ کو منتقلی کی منظوری دے دی ہے۔ اس کمیٹی میں وزیر خزانہ، وزیر دفاع و ہوا بازی، اور وزیر نجکاری شامل تھے۔
پی ای سی کی فروخت کی قیمت کا تعین اس کے اثاثوں، انفراسٹرکچر، مشینری، آلات اور انسانی وسائل کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت، ملازمین کی موجودہ تنخواہیں، الاؤنسز، پنشن، اور دیگر مراعات برقرار رہیں گی۔
پاک فضائیہ پی ای سی کے موجودہ آپریشنز کو برقرار رکھنے کے لیے مالیاتی انتظامات کی ذمہ دار بھی ہوگی۔
یاد رہے کہ گزشتہ اکتوبر میں حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی تھی، لیکن شارٹ لسٹ کیے گئے چھ میں سے پانچ بولی دہندگان نے مالی بولیاں جمع نہیں کروائیں، اور واحد بولی بھی مقررہ قیمت سے بہت کم تھی۔
بعد ازاں، حکومت نے نگران حکومت اور وزارت خزانہ پر نجکاری کے ناقص عمل کا الزام لگایا، جہاں 623 ارب روپے کے واجبات ختم کرنے کے باوجود بیلنس شیٹ پر 45 ارب روپے کی منفی ایکویٹی باقی رہی۔